نیو دہلی: بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ آزاد جموں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں کو خود مختاری دینی چاہیے۔

سری نگر میں قومی کانفرنس پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں بھارت اور پوری دنیا کے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ جو کشمیر ہے وہ پاکستان کا حصہ ہے اور جو حصہ بھارت کے ساتھ ہے وہ بھارت کا ہی ہے، یہ جنگ لڑنے کے باوجود بھی تبدیل نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا دونوں ممالک اپنے ساتھ موجود کشمیر کے حصوں کو خود مختاری دیں۔

مزید پڑھیں : جاگو انڈیا،تم کشمیر کو کھو رہےہو: فاروق عبداللہ

سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں رہ سکتا، ہم زمینی طور پر گھرے ہوئے ہیں، ہمارے ایک جانب چین، دوسری جانب پاکستان اور تیسری جانب بھارت ہے اور یہ تینوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں۔

بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ریاست نے انڈیا کے ساتھ محبت سے جڑنا چاہا تو کشمیری عوام کو دھوکا دیا گیا اور ان کے ساتھ ٹھیک طرح سے برتاؤ نہیں کیا گیا۔


یہ خبر 12 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Athar Massood Wani Nov 12, 2017 09:44pm
2/2 ڈوگرہ حکومت کے گورنر مولانا حشمت اللہ خان اپنی کتاب'' تاریخ جموں ''میں لکھتے ہیں کہ ''یہ حملہ آوروں کی تلوار کا زور تھا کہ جہاں تک پہنچا وہاں تک کشمیر بنا دیا ''۔آج کی صورت حال بھی کچھ یوں ہے کہ جموں انڈیا کا حصہ بننے پر خوش ہے اور وہاں کوئی تحریک نہیں چل رہی ،لداخ کے باشندے جہاں بدھ اکثریت ہے 50 سال سے تحریک چلا رہے ہیں کہ ہمیں مرکز(انڈیا)کے ساتھ ملایا جاے ۔یہاں بھی کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کی کوئی حمایت نہیں ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ شامل کئے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی کوئی تحریک آزادی نہیں چل رہی ۔یہ تحریک صرف لسانی ،ثقافتی ، اور تہذیبی یکسانیت رکھنے والی وادی کشمیر میں ہی جاری ہے جو علاقے تاریخی طور پر ''مراز اور کمراز''پر ہی مشتمل ہیں ۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ یہ سوچ ہی ہے جو مغلوں ،سکھوں، اور ڈوگروں کے جبری طور پر فتح کئے گئے علاقوں کے وارث بننا چاہتے ہیں ۔آج کے حالات میں جب کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں کسی فریق کے لئے اس مسئلہ کو طاقت کے بل پر حل کرنا ناممکن ہے ۔اور کسی بھی علاقے کے عوام کو ان کی خواہشات کے خلاف زبر دستی کہیں شامل کرنا انصاف نہیں ہو سکتا ،اس لئے موجودہ حالات میں یہ تجویز بالکل مناسب اور زمینی حقائق کے مطابق ہے، جس میں دونوں ایٹمی طاقتوں کی انا بھی مجروح نہیں ہوتی اور اپنی آزادی کے لئے قربانیاں دینے والے کشمیر کے عوام کا مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔