کراچی کی معروف سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قتل کے شبہے میں گرفتار مبینہ ملزم نے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے مشترکہ تفتتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقامی رہنما کی جانب سے ان کے قتل کے لیے طالبان کے کرائے کے دہشت گردوں کی مدد حاصل کرنے سمیت اہم معلومات دی ہیں۔

پولیس نے 24 اکتوبر کو کراچی کے علاقے منگھوپیر سے مبینہ ملزم امجد حسین کو پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہے میں گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ سیون اے کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

یاد رہے کہہ معروف سماجی رہنما اور اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کو مارچ 2013 میں قتل کیا گیا تھا۔

مبینہ ملزم امجد حسین کی گرفتاری کے بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی, جس نے اپنی تفتیش مکمل کرکے سندھ کے وزارت داخلہ میں اپنی رپورٹ جمع کرادی۔

ملزم نے جے آئی ٹی اراکین کو بتایا کہ وہ اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی ان کے دفتر کے بالکل سامنے رہتے تھے۔

ذرائع کے مطابق مبینہ ملزم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ 'اے این پی کے مقامی رہنما ایاز سواتی اوررحیم سواتی نے کراٹے سینٹر کھولنے کے لیے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی, لیکن مسلسل درخواستوں کے باوجود پروین رحمٰن نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کمپاؤنڈ کے اندر جگہ دینے سے انکار کیا تھا'۔

انھوں نے کہا کہ 'پروین رحمٰن نے انھیں اے این پی کا قبضہ گروپ کہا تھا اور پارٹی رہنماؤں نے اس کو اپنے لیے اور پارٹی کے لیے 'بے عزتی' تصور کیا تھا۔

گرفتار مبینہ ملزم نے جے آئی ٹی اراکین کو بتایا کہ جنوری 2013 میں رحیم سواتی کی رہائش گاہ میں ایک ملاقات ہوئی, جس میں وہ اور ایاز سواتی اور احمد عرف پپو موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں:پروین رحمٰن قتل کیس: مرکزی ملزم رحیم سواتی پر فرد جرم عائد

ان کا کہنا تھا کہ پروین رحمٰن کا قتل غصے اور بدلے کا ایک واقعہ تھا۔

اپنے اعترافی بیان میں انھوں نے کہا کہ رحیم سواتی نے ایاز کے موبائل سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مقامی کمانڈر موسیٰ اور محفوظ اللہ عرف بھالو کو فون کیا، اور وہ دونوں پیسوں کے عوض پروین رحمٰن کے قتل کے لیے تیار ہوگئے، انھوں نے قتل کے بعد ادائیگی کا یقین دلایا'۔

مبینہ ملزم کا کہنا تھا کہ ایاز اور رحیم سواتی نے پپو کو موسیٰ اور بھالو سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی اور وہ (امجد حسین)، رحیم اور ایاز سواتی نے پروین رحمٰن کے معمول کی نگرانی شروع کردی اور موسی اور بھالو کو آگاہ کیا۔

مبینہ ملزم نے اعتراف کیا کہ '13 مارچ 2013 کو موسیٰ، بھالو اور پپو نے پروین رحمٰن کو پختون مارکیٹ کے سامنے شام کے ساڑھے 7 بجے نشانہ بنایا'۔

مزید پڑھیں:کراچی: اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ڈائریکٹر سمیت آٹھ افراد ہلاک

انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت ایاز کے ساتھ 'قاتلوں کی مدد کے لیے حاضر تھے، موسیٰ نے رحیم سواتی کو کام کی تکمیل کی خبر دی اور ادائیگی کا مطالبہ کیا'۔

مبینہ ملزم کا کہنا تھا کہ وہ اورایاز اس کے بعد رحیم ہاؤس گئے، جہاں انہوں نے پپو کشمیری، موسیٰ اور بھالو کی جانب سے کام مکمل کرنے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:پروین رحمٰن قتل کیس کا مرکزی ملزم تین مقدمات میں بری

مبینہ ملزم نے انکشاف کیا کہ رحیم سواتی نے انھیں عدم ادائیگی کے حوالے سے بتایا، موسیٰ نے رحیم سواتی کوفون کرکے چند دنوں بعد 40 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ جس کا وہ انتظام نہ کرسکے، اس لیے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں نے رحیم سواتی کے گھر پر گرینیڈ سے حملہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ حملے کے بعد رحیم سواتی گھبراگئے، اسی لیے اپنے آبائی علاقے منتقل ہوگئے۔

مزید پڑھیں:سماجی رہنما پروین رحمٰن پر بننے والی فلم کے لیے ترکی میں ایوارڈ

یاد رہے کہ معروف سماجی کارکن پروین رحمٰن نے سماجی کاموں کے لیے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی، اور انھیں 13 مارچ 2013 کو اورنگی میں ان کے دفتر کے قریب قتل کیا گیا تھا۔

بعدازاں پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے طالبان کے رکن قاری بلال نامی شخص کو ایک مقابلے میں ہلاک کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا وہ قاتل تھا۔

سپریم کورٹ نے اپریل 2014 میں جوڈیشل انکوائری کے بعد حکام کو پروین رحمٰن کے قتل کے حوالے سے ازسرنو تفتیش کا حکم دیا تھا،جس میں انکشاف ہوا تھا کہ پولیس افسران نے تفتیش میں ہیراپھیری کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں