وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ وفاق اور چاروں صوبائی حکومتیں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ترقی اور صنعت کاری کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ صرف چند افراد ایسے ہیں جو ملک میں افرا تفری کی فضا پیدا کررہے ہیں۔

یہ بات انہوں نے صوبائی اور علاقائی حکومتوں کا سی پیک پر مشترکہ تعاون کونسل (جے سی سی) کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

خیبر پختون خوا (کے پی کے) کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان، ڈپٹی اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی جعفر اللہ خان اور خیبر پختونخوا کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے ان کے نظریے کی حمایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: دھرنے کے باعث شہریوں کے لیے اذیت ناک صورتحال

وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ یہ بہت طعن آمیز بات ہے کہ تین سل قبل جب سی پیک کو متعارف کرایا گیا تھا تو ایک غیر معمولی صورت حال پیدا ہوئی تھی اور ایک سیاسی جماعت کی جانب سے طویل احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت میں کبھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاسکتا جس سے مریضوں، طالب علموں اور عوام کو تکالیف پہنچے جیسا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر ہورہا ہے اور کسی بھی شخص کو اللہ اور اس کے نبی پر ایمان کا تصدیق نامہ دینے کا اختیار نہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ احتجاجی مظاہرے میں چند مسلح افراد موجود ہیں جو تشدد کی فضاء چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ایمرجنسی کی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام ان مظاہرین کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ان چند مسلح افراد کی وجہ سے حکومت ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ دوبارہ نہیں دہرانا چاہتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سخت ردعمل کی قیمت بھی ہو سکتی ہے اور ہم مظاہرین سے گزارش کر رہے ہیں کہ ہمارے صبر کا امتحان نہیں لیں لیکن یہ ہمیشہ نہیں چلے گا'۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس نے 8 افراد کو گرفتار کرلیا

انہوں نے مظاہرین کو خبردار کیا کہ 'اگر ایسی صورتحال چلتی رہی توحکومت کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اور ریفارمز کمیشن کے وائس چیئرمین، پاکستان کے وزراء اعلیٰ اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے نمائندگان کی 20 نومبر کو اجلاس منعقد کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سی پی پیک کے پہلے مرحلے جس میں توانائی اور انفرا سٹرکچر شامل ہیں اور یہ آخری مراحل میں ہے اور اب یہ منصوبہ تمام صنعتی تعاون اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے ساتھ اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت نے سی پیک کے فریم ورک کو ملک، قبائلی علاقوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام حصوں تک پہنچانے کے لیے سیاسی قوتوں، نجی شعبوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی سرکیولر ریلوے اور مین ریلوے لائن کی تفصیلات مکمل کرلی گئی ہیں جب کہ ان کے گزرنے کی جگہوں کا معاملہ جے سی سی کے اجلاس سے قبل حل کرلیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'سی پیک سے پاکستان کو جنوبی ایشیامیں مرکزی حیثیت حاصل ہوئی ہے'

ان کا کہنا تھا کہ چین سے دیگر ممالک میں 8 کروڑ 50 لاکھ روزگار کے مواقع نکالے جائیں گے اور سی پیک کی وجہ سے پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اس میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 معاشی زون کی تعمیر سے مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کا موقع مل سکے گا اور صنعتی زونز کی ملکیت صوبوں کی دی جاچکی ہے۔

وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ سی پیک پورے پاکستان کا منصوبہ ہے جس سے تمام صوبوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف مغربی راستے بلکہ دیگر کئی سڑکوں کے جال بچھانے کے منصوبے اس وقت ترقی کے مراحل میں ہیں۔

ظفر اقبال جھگڑا کا کہنا تھا کہ معاشی زون کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک پہنچانا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو منظر عام پر لانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

مزید پڑھیں: سی پیک: 'پنجاب میں زیادہ سرمایہ کاری کا تاثر غلط'

آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم فاروق خان نے سی پیک کے تحت مانسہرہ، مظفر آباد اور میر پور تک 280 کلومیٹر کے ہائی وے منصوبے پر وفاقی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ معاشی زون خطے میں معاشی انقلاب پیدا کردے گا۔

جعفراللہ خان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے چاروں منصوبے جن میں چترال اور چکدرہ روڈ، دو ہائیڈرو پاور منصوبہ اور مخصوص معاشی زون کو سی پیک کے اگلے مرحلے کا حصہ بنادیا گیا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 16 نومبر 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں