ٹی وی چینلوں پر بننے والی اردو کی درگت کا حل کیا ہے؟

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2017
اب ادارہءِ فروغِ قومی زبان کی شائع کردہ فرہنگِ تلفظ کے سرورق کا عکس۔
اب ادارہءِ فروغِ قومی زبان کی شائع کردہ فرہنگِ تلفظ کے سرورق کا عکس۔

کچھ پاکستانی ٹی وی چینلوں پر ادا کیے جانے والے اردو تلفظ کسی برے خواب سے کم نہیں۔ مگر چینل مالکان اور اینکرز کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ وہ ہماری قومی زبان کا کس بے رحمی سے قتل کر رہے ہیں۔

اپنی اردو گفتگو میں انگریزی کے الفاظ اور فقروں کو شامل کرنے کے علاوہ یہ معصوم اینکرز کئی اردو الفاظ کا غلط تلفظ ادا کرتے ہیں، جس سے کبھی کبھی جملہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہوجاتا ہے۔

ایک اور مسئلہ ٹی وی چینلوں کی غیر معیاری گرامر ہے۔ مثال کے طور پر اردو کے لفظ 'عوام' کو کچھ ٹی وی چینل مؤنث اور واحد کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ 'عام' کی جمع ہے اور اسے ہمیشہ مذکر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

گرامر یا تلفظ کے مسائل عام طور پر ڈکشنری یا فرہنگ سے مدد لے کر حل کیے جاتے ہیں کیوں کہ زیادہ تر ڈکشنریوں میں تلفظ کا خیال رکھا جاتا ہے اور اسے واضح انداز میں لکھا جاتا ہے۔ جب تلفظ کی بات آئے، تو انگریزی میں اس پر بہت کام کیا گیا ہے۔ انگریزی تلفظ پر کیے گئے نمایاں ترین کاموں میں سے ایک The English Pronouncing Dictionary ہے جسے ڈینیئل جونز (1967-1881) نے مرتب کیا تھا، اور یہ پہلی بار 1917 میں شائع ہوئی۔ یہ ڈکشنری اب بھی تازہ ترین ایڈیشنز کی صورت میں دستیاب ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن میں علم الاصوات (گفتاری آوازوں کا علم) کے پروفیسر ڈینیئل جونز کو تلفظ اور ادائیگیوں میں اپنے مایہ ناز کام کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے لفظ 'phoneme' کو اس کے موجودہ معنیٰ میں استعمال کیا، یعنی: آواز کی اکائی؛ کسی زبان کی وہ مخصوص و منفرد آواز، جو ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے ممتاز کرتی ہے۔

انگریزی علم الاصوات پر ان کے کام کے علاوہ جونز کو بنیادی حروفِ عِلّت کا تصور دینے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ دکھایا کہ کس طرح حروفِ عِلّت کی ادائیگی کے وقت زبان اپنی جگہ تبدیل کرتی ہے۔ اب بھی لسانیات میں یہ نظام استعمال کیا جاتا ہے۔

مگر 'مثالی' تلفظ کی جونز کی تعریف وقت کے ساتھ بدل گئی۔ شروع شروع میں تو وہ انگریزی بولنے والے تعلیم یافتہ برطانوی افراد کے معیاری تلفظ کو 'پبلک اسکول پروننسیئشین' یا پی ایس پی کہا کرتے تھے، کیوں کہ ان کے نزدیک ان اسکولوں میں طلباء زبان کے معاملے میں اپنی 'مقامی باریکیوں' کو بھول کر وہ تلفظ استعمال کرتے جو روز مرّہ کی گفتگو میں عام طور پر سنائی دیتا۔

بعد میں انہوں نے میاری تلفظ کی تعریف پی ایس پی سے تبدیل کر کے 'ریسیوڈ پروننسیئشن' (آر پی) کر دی، جو کہ لندن اور اس کے آس پاس کے تعلیم یافتہ الفاظ کا تلفظ تھا۔ جونز ڈکشنری کے چودہیں ایڈیشن کے ایڈیٹر نے لکھا تھا کہ آر پی کا مزید دفاع نہیں کیا جا سکتا مگر اس فقرے کے عمومی اور وسیع استعمال کی وجہ سے اسے باقی رکھا گیا۔ ڈکشنری کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق جونز انگریزی کے جس لہجے کے بارے میں بات کر رہے تھے، اسے اب 'برٹش انگلش' کہا جاتا ہے۔

اردو تلفظ کی جانب واپس آئیں تو اس کا مسئلہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ اردو پورے برِصغیر کے کئی خطوں میں مقامی لہجوں میں بولی جاتی ہے، بلکہ اس میں شامل کئی عربی اور فارسی الفاظ اپنا تلفظ، اور کچھ معاملات میں تو اپنے اصل معانی بھی کھو چکے ہیں۔

ایک مخصوص اردو لفظ، چاہے عربی یا فارسی سے آیا ہو یا سنسکرت یا پراکرت سے، اس کے کئی مختلف تلفظ اور ہجے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرامر کے اعتبار سے ان کا استعمال بھی حیران کن حد تک مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر 'بلبل' اور 'دہی' دونوں کو مذکر اور مؤنث کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور مختلف لہجوں اور تلفظ کی بحث ختم کرنے کے لیے اردو کی ایک فرہنگِ تلفظ کی ضرورت تھی۔ اور یہ کام صرف شان الحق حقی کے پائے کے شخص ہی کر سکتے تھے۔ مقتدرہ قومی زبان یا نیشنل لینگوئیج اتھارٹی، جو اب ادارہءِ فروغِ قومی زبان (آئی ایف کیو زیڈ) کہلاتا ہے، اس کے پہلے چیئرمین کے طور پر افتخار عارف نے حقی صاحب سے کہا کہ وہ ایسی ایک فرہنگ ترتیب دیں۔ چنانچہ شان الحق حقی نے فرہنگِ تلفظ مرتب کی جو کہ اردو کی معدودے چند ایسی کتابوں میں سے ایک ہے۔

ڈکشنری میں مختلف تلفظات کا خیال رکھتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ کون سا کس جگہ استعمال کیا جانا چاہیے۔ ایک خصوصیت تلفظ کی صحیح ادائیگی کے لیے متعارف کروایا گیا نظام بھی تھی: تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ تلفظ صحیح ادا کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے اعراب اور قوسین کے اندر مخفف بھی دیے گئے جس میں ہر حرف کے اعراب کا الگ الگ حوالہ دیا گیا۔

اردو میں اعراب دکھانے کے دو نظام ہیں جنہیں 'مکتوبی' (تحریری) اور 'ملفوظی' (گفتاری) کہا جاتا ہے۔ کچھ معاملات میں وہ الفاظ جو بظاہر تو جمع ہوتے ہیں، مگر انہیں واحد، یا واحد کو جمع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ان الفاظ کا خیال رکھا گیا۔

پروفیسر فتح محمد ملک اور ڈاکٹر انوار احمد کے ادوار میں شائع ہونے والے دیگر ایڈیشنز میں کچھ نقادوں کی نشاندہی کردہ اغلاط کو حل کیا گیا۔ اب ادارے نے 732 صفحات پر مشتمل فرہنگِ تلفظ کا چوتھا ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اس دفعہ کی خصوصیت اس کی خطِ نستعلیق میں اشاعت ہے جو کہ زیادہ خوبصورت ہے اور جسے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔

افتخار عارف، جو کہ اب ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، نے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ 2017 حقی صاحب کی سوویں سالگرہ کا سال ہے، اور تازہ طباعت شدہ ایڈیشن ان کے صد سالہ جشن کے سال میں آیا ہے۔

یہ حقی صاحب جیسے ماہرِ فرہنگ و ماہرِ لسانیات کے لیے حقیقتاً ایک شایانِ شان خراجِ تحسین ہے۔ امید ہے کہ ہمارے ٹی وی چینل اس نئے ایڈیشن کا مکمل فائدہ اٹھائیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 14 نومبر 2017 کو شائع ہوا۔

تبصرے (4) بند ہیں

KHAN Nov 16, 2017 05:51pm
شان الحق حقی صاحب تو اپنا کام کرگئے ہمارا کام اس سے فائدہ اٹھانا ہے، چینلز اس کتاب کی اہمیت کو سمجھیں۔ خیرخواہ
Mudassir Iqbal umair Nov 16, 2017 07:37pm
کتاب کہاں سے مل سکتی ہے؟
Ahsan Nov 17, 2017 02:38am
سرکار اردو کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے صحیح املا لکھنا بھی ضروری ہے
ارشد اقبال Nov 17, 2017 11:05pm
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں ٹیلی وژن جرنلزم نے بہت کم وقت میں بہت جلدی ترقی کرلی ہے۔کم وقت میں جلد ترقی کی وجہ سے اس اہم شعبے میں ایسے ایسے لوگ آگئے جن کو ٹیلی وژن جرنلزم اور بالخصوص لفظوں کی ادائیگی سے متعلق الف ب کا بھی پتہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے رجحان کی وجہ ٹیلی وژن چینلز کے درمیان مقابلہ سخت سے سخت ترین ہوتا گیا اور سکرین پر بیٹھے اینکرز کو وہ تربیت نہ دی جا سکی جس کی ان کو اشد ضرورت تھی ۔ایسے میں آج وہیں غلطیاں ہو رہی ہیں جس کا ذکر تحریر میں کیا گیا ہے۔لیکن اب بھی کچھ بگڑا نہیں ٹیلی وژن سے منسلک تمام افراد اگر اپنی اصلاح کی کوششیں کریں تو اپنی غلطیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں اگر کوئی صحافی غلط الفاظ لکھے تو اس کے اصلاح کیلئے ایڈیٹرز موجود ہیں لیکن ٹیلی وژن میں براہ راست پروگرام میں غلطیوں کا ازالہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اس کیلئے متعلقہ کتابوں سے استفادہ کیا جائے ۔