واشگنٹن: امریکی نے دفاعی بل منظور کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کو لشکرِ طیبہ سے علیحدہ کردیا جبکہ پاکستان اور افغانستان کی افواج کے ساتھ مل کر صرف حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کے لیے مشترکہ کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔

سیکریٹری دفاع کی جانب سے کانگریس میں پیش کیے جانے والے گزشتہ بل میں لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی شرط بھی شامل تھی تاہم اسے حالیہ پیش کردہ بل سے نکال دیا گیا ہے۔

امریکا کے دونوں ایوانوں کانگریس اور سینیٹ سے منظور ہونے والے قومی دفاعی ایکٹ 2018 (این ڈی اے اے) میں کہا گیا کہ 2018 میں امریکا کے دفاع کے لیے 700 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

مذکورہ بل میں پاکستان کو پاک افغان سرحد کی نگرانی کے لیے 70 کروڑ ڈالر دینے کی بھی منظوری دی تاہم اس کی آدھی رقم روک لی گئی ہے۔

پڑھیں: امریکی دفاعی بل: کالعدم لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی شرط ختم

اس بل کے مطابق امریکی سیکریٹری دفاع جمیز میٹس کی جانب سے جب تک کانگریس کی ڈیفنس کمیٹی کو تصدیق نہیں کی جائے گی تب تک ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو 35 کروڑ ڈالر کی امداد روک سکتی ہے۔

جیمز میٹس کی جانب سے جاری سرٹیفکیٹ میں اس بات کی تصدیق ہوگی کہ پاکستانی افواج اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں، ان کی چندہ مہم، اور لوگوں کو بھرتی کرنے کے عمل کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔

سرٹیفکیٹ میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ ’پاکستان نے حقانی نیٹ ورک مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مؤثر اقدامات کیے ہیں اور ان کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان افغان طالبان،حقانی نیٹ ورک کےخلاف کارروائی میں ناکام: امریکا

علاوہ ازیں سرٹیفکیٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی جائے کہ حکومت پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ سرحد پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے روابط قائم کیے ہیں، حقانی نیٹ ورک کے افراد کو گرفتار کیا ہے، ان کے خلاف مقدمہ چلایا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں سزائیں دی ہیں۔

دوسری جانب پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ لشکرِ طیبہ کو حقانی نیٹ ورک سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکام افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو سراہا رہے ہیں۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’بھارت کے مخصوص گروپ واشنگٹن انتظامیہ کو یہ ظاہر کرانا چاہتے ہیں کہ لشکرِ طیبہ اور حقانیہ نیٹ ورک ایک ہی ہیں جو مل کر افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ کررہے ہیں‘۔

ایوان سے منظوری کے بعد این ڈی اے اے 2018 کو حتمی منظوری کے لیے امریکی صدر کے پاس بھیج دیا گیا۔


یہ خبر 18 نومبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں