حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دینے والی مذہبی جماعتوں کے سربراہان کو وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے عہدے کی تبدیلی یا چھٹیوں پر بھیجنے کی پیشکش کردی جسے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ نے مسترد کردیا۔

حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ دھرنے دینے والی جماعتوں کے سربراہان کو متعدد پیشکش کی گئیں تاکہ وہ اپنا دھرنا ختم کریں لیکن انہوں نے تمام کو مسترد کردیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 'دھرنے پر بیٹھے افراد وزیر قانون کے کابینہ سے برطرف کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے لیے حکومت رضامند نہیں'۔

مزید پڑھیں: 'اسلام آباد دھرنا حکومت کے خلاف سازش'

ان کا مزیر کہنا تھا کہ اگر مظاہرین دھرنا ختم کرتے ہیں تو وفاقی وزیر قانون اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے حکومت نے انہیں بیرون ملک بھیجنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر قانون اور ان کے اہل خانہ کو ملنے والی دھمکیوں کے تحت ان کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح بن چکی ہے جبکہ وزیر ہونے کی وجہ سے زاہد حامد کو سیکیورٹی پروٹوکول ملا ہوا ہے جو ان کے کابینہ سے ہٹائے جانے پر واپس لے لیا جائے گا جس کے بعد وہ دہشت گردوں کا آسان ہدف ہوسکتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں قانون ساز علماء کرام، جڑواں شہر میں مزاروں کے متولی اور گولڑہ کے پیر کے نمائندے سمیت 30 افراد شامل تھے۔

سینیٹ کے قائد ایوان راجہ ظفر الحق حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے۔

ڈان کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ زاہد حامد کے عہدے کی تبدیلی ان تمام مسائل میں سے ایک تھی جس پر ملاقات کے دوران مظاہرین کے نمائندوں سے بات کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین کے سربراہان کی وزیر قانون سے ملاقات کی بھی پیشکش کی گئی جس کا مقصد دونوں جانب کے مسائل پر بات اور شبہات کو ختم کیا جانا تھا لیکن مظاہرین کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اپنی عوام سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ہم وزیر قانون کی برطرفی سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کی مذہبی جماعتوں کو دھرنا ختم کرنے کی ہدایت

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر ایک کمیٹی کام کر رہی ہے اور جب تک اس کمیٹی کی جانب سے تحقیقات سامنے نہیں آجاتیں مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

سینیٹر نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیر قانون اور ان کے اہل خانہ کو کئی دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ہیں جبکہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

حکومت کا کہنا تھا کہ مذاکرات اب بھی جاری ہیں جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے پولیس کو کسی بھی قیمت پر مظاہرین کو ہٹانے کے احکامات دیئے تھے لیکن حکومت کو مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

احسن اقبال کی مظاہرین سے اپیل

وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے میں موجود شرکاء سے ایک مرتبہ پھر دھرنا ختم کرنے کی اپیل کردی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی ختم نبوت کے حوالے سے اتنی ہی حساس ہے جتنے دھرنے والے ہیں تاہم یہاں یہ سوچنا کہ حکومت اس قانون پر سمجھوتہ کر لے گی، ممکن نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں ختمِ نبوت کے قانون کی محافظ پاکستان کی پارلیمنٹ اور پاکستان کے عوام ہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں جاری دھرنے اور اس کے شرکاء کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دھرنے والے لوگ پاکستانیوں میں اشتعال پیدا کر رہے ہیں اور حقائق کے برخلاف پروپگینڈا میں مصروف ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اسلام آباد میں دھرنے کی وجہ سے 8 لاکھ سے زائد افراد محصور ہوگئے ہیں۔

انہوں نے دھرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے والے کیوں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ختم نبوت کے معاملے پر لوگوں کو مشتعل کرنا مناسب نہیں تاہم وفاقی وزیر نے مذہبی جماعتوں کی جانب سے دیے گئے دھرنے میں شریک رہنماؤں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے والے اشتعال انگیز تقاریر سے اجتناب کریں۔

انہوں نے ملک بھر کے علماء سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کو کشیدگی کی جانب دھکیلنے کی کوششوں سے بچائیں۔

احسن اقبال نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ کوئی سیاسی جماعت دھرنے کو آئندہ انتخابات کے لیے اپنا لانچنگ پیڈ بنانا چاہتی ہے تو وہ کھل کر سامنے آئے۔

پاکستان کے آئین میں ختمِ نبوت کے قانون کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون مزید سخت ہوگیا ہے بلکہ جو ابہام اس میں موجود تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

وزیر داخلہ نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ کہ دھرنے میں موجود شرکاء یا ان کے علماء میں سے کوئی بھی یہ بتائے کہ آئین میں اب کیا سقم رہ گیا ہے؟

اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کا مظاہرہ

خیال رہے کہ سنی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان یا تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر گذشتہ 13 روز سے زائد سے دھرنا دے رکھا ہے۔

دھرنے میں شامل مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابات کے اُمید وار کے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2 روز قبل ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہٹانے کا حکم جاری کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ضلعی انتظامیہ کو مظاہرین کو ہٹانے کی ہدایت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی دھرنے کو ختم کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم عدالت کی جانب سے دی گئی مہلت کا وقت ختم ہونے کے بعد فیض آباد انٹرچینج کی صورت حال میں کافی تناؤ پیدا ہوا تاہم وزیرداخلہ احسن اقبال کے حکم پر آپریشن کو 24 گھنٹوں کے لیے مؤخر کردیا گیا تھا۔

احسن اقبال نے آپریشن کو مؤخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحفظ ختم نبوت قانون پاس ہونا پارلیمنٹ کا تاریخی کارنامہ ہے اور قیامت تک کوئی اس میں تبدیلی نہیں لا سکے گا اس لیے اب دھرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔

یاد رہے کہ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور تشدد کے نتیجے میں ایک ایف سی اہلکار زخمی ہوگیا تھا جس کا مقدمہ دھرنے میں موجود قائدین کے خلاف درج کیا گیا جس کے بعد ان پر درج مقدمات کی تعداد 17 ہوگئی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: 'معاملے کا حل پرامن طریقے سے نکل آئے گا'

خیال رہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا یا احتجاجی مظاہرہ کیا جائے تو انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو کنٹینرز لگا کر سیل کردیا جاتا ہے۔

مذہبی جماعت کی جانب سے دیے جانے والے حالیہ دھرنے میں اب تک ایک بچے کی ہسپتال نہ پہنچے کے باعث ہلاکت ہوچکی ہے، جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

سٹرک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں