حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے سعودی عرب اور بحرین کی جانب سے لگائے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کے خاتمے کے اعلان کے بعد عراق سے اپنے جنگجووں کو واپس بلانے کو تیار ہیں۔

حسن نصراللہ نے ٹیلی ویژن کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ لبنانی تحریک نے عراق میں داعش کے خلاف لڑنے کے لیے 'اپنے کمانڈرز اور جنگجووں کو بڑی تعداد میں' بھیجے تھے۔

انھوں نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ مشن مکمل ہوگیا ہے لیکن عراق کی جانب سے حتمی اعلان کے منتظر ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی سرکاری سطح پر اعلامیہ آئے گا تو حزب اللہ عراق میں اپنی موجودگی کا ازسرنو جائزہ لے گی اور اپنے کارکنوں کو واپس بلا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عرب لیگ اجلاس:سعودی عرب، بحرین کی ایران پر شدید تنقید

حسن نصراللہ نے کہا کہ 'اگر ہم یہ سمجھ گئے کہ کام مکمل ہوا ہے تو پھر ہمارے بھائیوں کی وہاں موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ کسی دوسری جگہ جہاں پر ان کی ضرورت ہو وہاں جانے کے لیے واپس آئیں گے'۔

خیال رہے کہ حزب اللہ نے ایران کے ہمدرد گروہ حشد الشعبی کی تریبت اور مشاورت کے لیے تجربہ کار کمانڈرز کو عراق بھیج دیا ہے۔

عراقی فورسز کی جانب سے 17 نومبر کو الراوہ کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا جو عراق میں داعش کے قبضے میں آخری قصبہ تھا جس کو تین سال کی طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا۔

مزید پڑھیں:داعش کو عراق میں آخری قصبے میں بھی شکست

دوسری جانب گزشتہ روز سعودی عرب کی درخواست پر ہونے والے عرب لیگ کے غیرمعمولی اجلاس میں سعودی عرب اور بحرین کے وزرا خارجہ نے ایران اور حزب اللہ پر شدید تنقید کی تھی۔

بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ کا کہنا تھا کہ لبنان کی شیعہ تحریک حزب اللہ کو ملک پر 'مکمل قبضہ' حاصل ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ 'خطے میں اس وقت ایران کا سب سے بڑا بازو دہشت گرد حزب اللہ کا بازو ہے'۔

بحرینی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ 'حزب اللہ نہ صرف لبنان کی سرحد کے اندر کارروائی کرتی ہے بلکہ ہم تمام ملکوں کی سرحدوں کو پار کرتی ہے جو عرب قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے'۔

انھوں نے عرب لیگ کے اراکین سے مطالبہ کیا ہے کہ 'حزب اللہ حکومت کی شراکت دار ہے اس لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کرے'۔

تاہم حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں عرب لیگ کے اجلاس میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی جانب سے سعودی عرب پر کیے میزائل حملوں میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کی جانب رواں ماہ کے اوائل میں ایران پر ملکی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے سعودی عرب میں اپنے عہدے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد لبنان اور سعودی عرب کے درمیان معاملات کشیدہ صورت اختیار کرگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں