کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کو دی جانے والی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس کو از سر نو سماعت کے لیے سیشن عدالت بھیجنے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ سکندر جتوئی کے بیٹے شاہ رخ جتوئی اور ان کے دوست نواب سراج علی تالپور سمیت دیگر 2 ملزمان کو ڈی ایس پی اورنگزیب کے 20 سالہ بیٹے شاہ زیب کے قتل کے جرم میں 7 جون 2013 کو سزائے موت سنائی گئی تھی، شاہ زیب کو 25 دسمبر 2012 کو ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ کے قریب قتل کیا گیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ میں سزائے موت کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں شاہ رخ جتوئی کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائک نے دلائل پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل جرم کے وقت نابالغ تھے، جس کی بنا پر ان پر انسداد دہشت گردی کا قانون لاگو نہیں ہوتا، انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کی دوبارہ سماعت ایک ملزم کی حیثیت سے عام عدالت میں کی جائے کیونکہ شاہ رخ جتوئی جرم کے وقت بالغ نہیں تھا۔

فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی عمر 18 سال سے کم ہونے کی بنا پر ان کا مقدمہ جیو نائل قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے تھا جبکہ ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سنا گیا، جو غیر قانونی تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فریقین کے درمیان صلح نامہ بھی طے پا گیا تھا جس کی پیروی درخواست بھی عدالت میں جمع کرائی جاچکی ہے، انہوں نے بتایا کہ اس صلح نامے کے مطابق مقتول کے اہل خانہ نے تمام ملزمان کو معاف کردیا تھا۔

تاہم عدالت نے دلائل سننے کے بعد تمام مجرموں کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے کی از سر نو سماعت کے لیے سیشن عدالت بھیجنے کا حکم جاری کردیا۔

عدالت کی گزشتہ کارروائیاں

یاد رہے کہ شاہ زیب کے قتل کے بعد شاہ رخ جتوئی کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کی وجہ سے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

مزید پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: مرکزی ملزم عدالت میں پیش

اس واقعے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر بحث شروع ہو گئی تھی، جس میں سندھ کے طاقتور جاگیرداروں اور اشرافیہ کے جرائم کی جوابداری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

کیس کی تیزی سے ہونے والی سماعت میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن نے شاہ رخ جتوئی، شریک ملزم نواب سراج تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو سزائے موت جبکہ ایک ملازم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ میں موجود کرمنل لاء کے سیکشن 345(2) کے تحت عدالت مجرم کو مقتول کے لواحقین سے صلح کا قانونی حق دیتی ہے جس میں قصاص اور دیت کی صورت موجود ہے۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ شاہ زیب کا مجرمان سے ان کی چھوٹی بہن کو چھیڑنے کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد اس مسئلے کو بڑوں کی جانب سے حل کرلیا گیا تھا، لیکن مجرمان نے مقتول کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: مرکزی ملزم گرفتار

اس واقعے کا مقدمہ (12/591) مقتول شاہزیب کے والد کی مدعیت میں پاکستان پینل کورٹ کے سیکشن 302،109،34 کے تحت درج کروایا گیا تھا، تاہم دوران تفتیش انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون کا سیکشن 354 اور سیکشن 7 بھی ایف آئی آر میں شامل کر لیا گیا۔

غلام مرتضیٰ لاشاری کی جانب سے مقتول کی بہن کے ساتھ بدسلوکی کے بعد واقعہ پیش آیا، دوران سماعت شاہزیب کی بہن نے عدالت کو ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بیان دیا کہ وہ شادی کی ایک تقریب سے واپس آرہی تھیں جب ملزمان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔

شاہزیب کی بہن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں فوراً اپنی والدہ کو فون کے ذریعے اطلاع دی۔

عدالت میں ان کی والدہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی شاہزیب کو گھر سے روانہ کیا تھا۔

شاہزیب کا جائے وقوع پر نواب سراج تالپور کے ملازم سے جھگڑا ہوا، شاہ زیب کی والدہ نے معاملے کو ختم کرنے کیلئے اپنے بیٹے کو ملزمان سے معافی مانگے کو بھی کہا تھا۔

شاہ زیب نے وہی کیا جو ان کی والدہ نے ان سے کہا لیکن ملزمان نے ان کی معافی قبول نہیں کی، انھوں نے اپنے ملازم اور تالپور خاندان کے باورچی لاشاری کے مطمئن ہونے سے معافی کو مشروط قرار دیا۔

شاہزیب کی والدہ نے اپنے بیٹے کو فوری طور پر وہاں سے روانہ ہونے کے لیے کہا، لیکن شاہ رخ جتوئی مقتول کو اسلحے کے زور پر دھمکاتے رہے، اور دیگر 4 ملزمان بھی موقع پر موجود تھے، تاہم بعد ازاں شاہ زیب کو ان کی رہائش گاہ خیابانِ بحریہ میں قتل کیا کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

hasnu Nov 28, 2017 01:28pm
وہ تو ہونا ہی تھا یہ تو شکریہ ادا کرے افتخار چوہدری کا اب تک یہ بندہ قیداور کیس اب بھی کچھ سانسیں لے رہا ہے۔ ورنہ ہمارے ملک کی کمزور قانونی زنجیریں اتنے طاقتور انسان کی بوجھ اتنے عرصے تک برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔
Neelofer Nov 28, 2017 02:18pm
I still remember that case. It was shahzeb Khanzada who talked n fought the case on media. I wish justice for shahzeb's family. I wish..
KHAN Nov 28, 2017 05:46pm
اگر یہ دہشت گردی نہیں تھی تو پھر کچھ بھی دہشت گردی نہیں۔