پشاور کے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ( اے ٹی آئی) پر حملے کی تحقیقات کرنے والے تفتیش کاروں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے خود کش حملہ آوروں کو دھوکا دیا اور اس بات کا یقین دلایا تھا کہ یہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا دفتر ہے۔

واضح رہے کہ جمعہ کو پشاور کے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر ہونے والے حملے میں 8 طلباء سمیت 9 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہوئے تھے جبکہ 2 گھنٹے کے طویل آپریشن میں تینوں دہشت گردوں کو مار دیا گیا تھا۔

ایک سینئر پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ منصوبہ سازوں نے حملہ آوروں کو ٹارگٹ کے بارے میں جان بوجھ کر گمراہ کیا، ان کا اصل ہدف زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ہی تھا لیکن انہیں یہ کہہ کر گمراہ کیا گیا کہ یہ انٹیلی جنس ایجنسی کا دفتر ہے۔

اہلکار نے بتایا کہ یہ بظاہر حملہ آوروں کو حوصلہ دینے کے لیے کیا گیا تھا اور حملہ آوروں کی جانب سے طلباء سے پوچھا گیا کہ آیا یہ انٹیلی جنس ایجنسی کا دفتر ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: پشاور: زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 9 افراد ہلاک

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی، ٹی ٹی ٹی کے عمر میڈیا سیل کی جانب سے دو منٹ طویل حملے کی ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں ایک حملہ آور نے یہ تصدیق کرنے کی کوشش کی کہ آیا عمارت کو انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔

ویڈیو میں ایک لڑکے کی جانب سے جان بخشنے کی درخواست پر حملہ آور کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ وہ اسے نہیں مارے گا اگر وہ اسے بتا دے کہ آیا یہ ایجنسی کا دفتر ہے یا نہیں۔

حملے کی براہ راست نشریات

پشاور یونیورسٹی کے سامنے واقع زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ پر حملے نے آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر بدترین حملوں کی یاد تازہ کردی۔

پولیس کے تفتیش کاروں کے مطابق یہ پہلا موقع تھا جب حملہ آوروں کی جانب سے منصوبہ سازوں کو حملے کے بارے میں اسمارٹ فون کے ذریعے براہ راست دکھایا جارہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک حملہ آور نے اپنے جسم سے اسمارٹ فون کو منسلک کیا ہوا تھا اور انہوں نے حملہ براہ راست دکھانے کے لیے کچھ مواصلاتی اپلیکشن کا استعمال کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہی فوٹیج ہے جو ایک دہشت گرد کی جانب سے براہ راست دکھائی گئی تھی۔

ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ حملہ آور تین خود کش جیکٹس پہنے ہوئے تھے جس میں کم وزن والا دھماکا خیز مواد موجود تھا، جو انہوں نے استعمال نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ 20 دستی بموں اور 2 آئی ای ڈیز کا ساتھ لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بڑی جنگ کے لیے آئے تھے۔

انتظامیہ کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کو عمارت کے اندر تک محدود کردیا اور دو گھنٹے تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے کے بعد حملہ آوروں کو مار دیا گیا جبکہ سیکیورٹی فورسز نے دیگر دہشت گردوں کی تلاش کے بعد علاقے کو کلیئر کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردوں کے 6 سال میں 35 سے زائد تعلیمی اداروں پر حملے

پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی سیکشن 7 اور اسلحہ ایکٹ کے سیکشن 15 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں 302،324،353 اور 427 کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق حملہ صبح8.35 منٹ پر ہوا، جب رکشے میں سوار تین برقع پوش حملہ آوروں نے زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے دروازے پر تعینات چوکیدار عبدالحمید کو نشانہ بنایا اور عمارت میں داخل ہوئے۔

پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے رکشے کی نمبر پلیٹ جعلی ہے۔

زرعی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ایک طالب علم کی جانب سے کیے گئے دعوے پر کہ اس نے ایک حملہ آور سے اسلحہ چھین لیا تھا اور اسے واش روم میں بند کردیا تھا اور پولیس نے اسے مار دیا پر پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم تفتیش پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ہمیں اس کے دعوے کی تصدیق کی ضرورت نہیں۔


یہ خبر 03 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں