اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان ایک کروڑ 20 لاکھ ووٹرز کا فرق ختم کرنے کے لیے مہم کا آغاز کردیا۔

واضح رہے کہ ستمبر 2017 کی انتخابی فہرستوں کے مطابق رجسٹر ووٹرز کی تعداد 9 کروڑ 70 لاکھ سے زائد ہے، جس میں(56.27 فیصد) 5 کروڑ 46لاکھ مرد اور (43.73 فیصد) 4 کروڑ 24 لاکھ 20 ہزار خواتین ووٹرز شامل ہیں۔

مارچ 2013 کے مقابلے میں مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق ایک کروڑ 97 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 21 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔

نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ( نادرا) کے ساتھ اشتراک میں شروع ہونے والی اس مہم کے آغاز کے موقع پر چیف الیکشن کمیشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کا کہنا تھا کہ یہ وسیع بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ انتخابات ہر جمہوریت کی بنیاد ہیں تاہم جب تک ضروری اصولوں پر عمل نہ ہو انتخابات میں حقیقی جمہوریت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں بڑے پیمانے پر تبادلے

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا یقین ہے کہ انتخابات آزاد، منصفانہ اور شفاف ہوں تو معاشرے کے ہر طبقے کو اس میں حصہ لینے کا برابر موقع حاصل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی آبادی کا تقریباً آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہے تاہم انتخابی عمل خاص طور پر ووٹرز کے طور پر ان کی نمائندگی کم ہے جس کی بنیادی وجہ سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کے باعث قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) کا نہ ہونا ہے اور میرے لیے اس کا مطلب فیصلہ سازی کے عمل میں آبادی کی بڑی تعداد کو نظر انداز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی پی نے ملک کے 79 اضلاع میں غیر رجسٹرڈ خواتین کے لیے مہم شروع کی ہے، جس میں خواتین کو شناختی کارڈ کی سہولت دی جائے گی تاکہ وہ خود کو ووٹر کے طور پر رجسٹر کرسکیں۔

چیف الیکشن کمیشنز نے کہا کہ یہ مہم ای سی پی، نادرا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی مشترکہ کوشش ہے تاکہ وسیع سطح پر کام کیا جاسکے۔

اس منصوبہ کے تحت آزاد اور منصفانہ انتخابی نیٹ ورک (فافین) 17 لاکھ غیر رجسٹر خواتین تک رسائی چاہتا ہے تاکہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کرسکے اور وہ شناختی کارڈ کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دے سکیں۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابی فہرستوں کے لیے بہت کم وقت ہے اور آئندہ برس اپریل تک انہیں اپ ڈیٹ بھی کرنا ہے، انہوں نے نادرا کی صلاحیت میں اور انتظامی معاملات میں کمی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ انتخابی فہرستوں میں خواتین کی بڑی تعداد میں رجسٹریشن کا ہدف نا مکمل رہنے کا بھی امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی ملک بھر میں نادرا کے علاقائی اور مقامی مراکز سے الگ الگ ونڈوز ( قومی رجسٹریشن سینٹرز ، این آر سی)، موبائل رجسٹریشن وینز ( ایم آر ویز ) اور نادرا دفاتر کے باہر رجسٹریشن کیمپس کے ذریعے خواتین کی رجسٹریشن کو آسان بنانے کے لیے کام کر رہی ہے تاہم انہیں کچھ علاقوں میں نادرا کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں چیلنجز کا سامنا ہے جس سے رجسٹریشن کی مجموعی رفتار پر اثر پڑ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018 : الیکشن کمیشن کی تیاریاں تیز

اس حوالے سے جب سول سوسائٹی کے نمائندے سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ نادرا سینٹرز میں سول سوسائٹی کے کیمپس خواتین درخواست گزار کے لیے کافی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں تاہم ان کیمپس کے لیے نادرا سے اجازت لینا اب بھی ایک چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کی شرح بڑھانے کے ساتھ نادرا کو اضلاع میں اپنے کام کے وقت کو بڑھانا چاہیے اور اپریل 2018 تک تمام این آر سیز کے لیے ہفتے کے دن کو کام کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم آر ویز کی شناختی کارڈ کے عمل کی گنجائش یومیہ 50 کی جائے، اس کے علاوہ مقامی طور پر ایم آر ویز سی ایس اوز کے ساتھ رابطہ منظم کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ پہلی دفعہ رجسٹریشن کروانے والے کو این آر سی مفت شناختی کارڈ جاری کرے۔

انہوں نے کہا کہ این آر سیز سے نئی رجسٹریشن کے لیے خاص دن، کاؤنڑز اور کھڑکیوں کو مختص کرنے کے لیے نادرا کے انتظامی قوانین میں ترمیم کی جاسکتی ہے، نادرا ایم آر ویز کو ہدایت کرسکتا ہے کہ وہ مخصوص علاقوں میں خواتین کی نئی رجسٹریشن پر تخصیص کرے اور پہلی مرتبہ رجسٹریشن کروانے والی خواتین کو مفت کارڈ جاری کرے۔


یہ خبر 05 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں