اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ ایک ارب 20 کروڑ روپے بد عنوانی کے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں نئے پراسیکیوٹر کی تقرری تک سماعت ملتوی کی جائے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کی آئندہ سماعت کا آغاز 11 دسمبر سے ہونے جارہا ہے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاخیل لاہور ہائی کورٹ کے 2014 کے فیصلے کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت کریں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ نومبر میں وقاص قدیر ڈار کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے نیب پراسیکیوٹر جنرل کا دفتر خالی ہے۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کا تمام ریکارڈ طلب

نیب کی جانب سے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے دستاویزات میں درخواست کی گئی تھی کہ اس معاملے کی سماعت 11 نومبر کو کرنے کے بجائے ملتوی کردی جائے۔

کیونکہ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کے لیے اپیل انتہائی اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا نیب نے دلیل دی ہے کہ اس درخواست کو پراسیکیوٹر جنرل آفس کے ذریعے سنا جائے، نیب نے کہا کہ اس حوالے سے سمری صدر کی منظوری کی منتظر ہے۔

اس سے قبل 28 نومبر کو نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر جنرل عمران الحق نے بینچ سے بیورو کی اپیل کی توثیق کی درخواست کی لیکن وہ عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد سوالات کا جواب نہیں دے سکے تھے۔

اس کے علاوہ ان کے پاس 2000 کے اصل ریفرنس کے حوالہ نمبر 5 کی نقل بھی موجود نہیں تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ اس ریفرنس سے متعلقہ نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے پاناما پیپرز کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی جلد 8 (اے) طلب کی جس میں ریفرنس کی نقل بھی شامل تھی۔

ہفتہ کوپیش کردہ دستاویزات میں نیب نے حدیبیہ کیس کے حتمی ریفرنس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 8 (اے) کی عبوری نقل پیش کی جس میں حدیبیہ ریفرنس کی نقل بھی شامل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس: شریف خاندان کے ایک اور امتحان کا آغاز

اس کے علاوہ نیب نے احتساب عدالت کی جانب سے سنے گئے حدیبیہ ریفرنس کی ڈائری بھی جمع کرائی، ساتھ ہی نیب کے چیئرمین کی تقرری کا طریقہ کار اور 1999سے اب تک ہونے والے تمام چیئرمینز کی تقریی کی فہرست بھی جمع کرائی۔

نیب نے عدالت میں نواز شریف کے وزیر اعظم رہنے اور پرویز مشرف کی جانب سے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کی ٹائم لائن بھی پیش کی۔

گزشتہ سماعت پر عدالت نے نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ مخصوص تاریخوں اور وقت پر ریکارڈ پیش کریں کہ معزول وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف اعلیٰ کب کب دفاتر میں رہے اور کب انہیں جلا وطن کیا گیا۔

نیب کو مزید حکم دیا گیا کہ نیب کے تمام چیئرمینز کی تقرری کی تاریخ دکھائی جائے اور ان کی تقری کے لیے اہلیت اور طریقہ کار بھی وضح کیا جائے جبکہ ان کی تقرری کے اختیارات کے حوالے سے بھی آگاہ کیا جائے۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے خلاف نیب نے حدیبیہ پیپر ملز کا ریفرنس 2000 میں دائر کیا تھا، تاہم 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔

پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے جے آئی ٹی کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا، جس میں2000 میں اسحٰق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس دوبارہ کھولنا نا انصافی ہے

اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔


یہ خبر 10 دسمبر2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں