ملتان میں مشتعل وکلاء نے مطالبات منظور نہ ہونے پر نئے جوڈیشل کمپلیکس (نئی کچہری) پر دھاوا بول دیا اور کمپلیس کے دروازے، کھڑکیاں اور شیشے توڑ دیئے۔

واضح رہے کہ پرانے جوڈیشل کمپلیکس کی نئی عمارت میں منتقلی کے خلاف بدھ کو ملتان کے وکلاء نے احتجاج کیا اور سیشن کورٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس اور وکلاء کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تاہم وکلاء عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

احتجاج کے دوران خواتین وکلاء کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، وکلاء کا کہنا تھا کہ 3 سے 4 ماہ ہوگئے لیکن ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جارہے۔

وکلاء کا موقف تھا کہ نیا جوڈیشل کمپلیکس تو بنا دیا گیا لیکن ان کے چیمبر نئی عمارت میں نہیں بنائے گئے، جس کے باعث وہ سخت سردی اور بارش کے دوران بے سرو سامانی کی حالت میں کھلے میدانوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور میں وکلاء گردی، اے ایس آئی پر تشدد

اس بارے میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کے مطالبات جائز تھے اور اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر وکلاء نے احتجاج کا طریقہ کار اپنایا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح آج کل مطالبات منظور کرائے جارہے ہیں، سڑکوں کو بند کیا جارہا ہے، دھرنے دیئے جارہے ہیں، توڑ پھوڑ کی جارہی ہے تو اگر وکلاء برادری نے بھی یہی طریقہ کار اپنا لیا تو اس میں کسی کو کیا حرج ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ جو طرز عمل چل رہا ہے اس کے مطابق مطالبات جائز ہو یا ناجائز انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم وکلاء برادری کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور امید ہے کہ مذاکرات کے دوران کوئی معاہدہ طے پا جائے گا جس کے بعد یہ احتجاج ختم ہوجائے گا لیکن اگر ہم مذاکرات میں ناکام رہے تو پھر کسی تیسرے فریق کے ذریعے معاہدہ کریں گے۔

دوسری جانب پولیس نے کہا کہ ہم وکلاء کو تنگ کرنا نہیں چاہتے کیوں کہ اعلیٰ حکام کے پہلے ہی وکلاء سے مذاکرات چل رہے ہیں لیکن وکلاء کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز بارش بھی ہوئی اور موسم انتہائی سرد ہوگیا تاہم نئی کچہری میں چیمبر نہ ہونے سے انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

خیال رہے کہ انتظامیہ کی جانب سے کچھ ماہ قبل پرانی کچہری سے سارا سامان نئے جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کیا تھا، جس کے بعد وکلاء برادری کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ہائی کورٹ کے باہر ججز کا گھیراؤ کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔

وکلاء برادری نے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک چیمبر نہیں بن جاتے تب تک نئے جوڈیشل کمپلیکس کو واپس منتقل کیا جائے تاہم انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کمپلیکس واپس کسی صورت منتقل نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی، پولیس کی شیلنگ

وکلا کا کہنا تھا کہ کچہری شہر سے کافی زیادہ دور ہے، جس کے باعث کوئی ٹرانسپورٹ بھی وہاں نہیں جاتی، جس کے باعث پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کی وجوہات

یاد رہے کہ پرانی کچہری ملتان کی مرکزی شاہراہ پر موجود تھی اور یہاں پارکنگ کی سہولت بھی موجود نہیں تھی جبکہ کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آسکتا تھا۔

9 سال قبل سے یہ منصوبہ چل رہا تھا اور نئی کچہری تعمیر کردی گئی تھی لیکن وکلاء کی جانب سے اس کچہری میں منتقلی پر اعتراض کیا جارہا تھا۔

اس حوالے سے انتظامیہ اور وکلاء کے درمیان 5 سے 6 برس تک مذاکرات چلتے رہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، جس کے بعد چند ماہ قبل انتظامیہ کی جانب سے تمام عدالتیں رات کے اندھیرے میں نئی کچہری میں منتقل کردی گئی تھی۔

انتظامیہ کی جانب سے وکلاء کو نئی کچہری میں چیمبر تو الاٹ کردیئے تھے لیکن اس جگہ چیمبر تعمیر نہیں کیے گئے تھے، جس کے باعث انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں