امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ پاکستان اب بھی امریکا کے لیے اہم اور قابل قدر شراکت دار ہے تاہم پاکستان کے ساتھ ان امور سے نمٹنے لطف اندوز نہیں ہوتے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن اور سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے پاکستان کے دوروں کے دوران دو طرفہ تعلقات میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا۔

پینٹاگون کے مطابق ‘امریکی سیکریٹری کی پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات ‘بہت اچھی’ رہی جس میں باہمی تعلقات کے لیے ’مشترکہ مفاد’ پر بات ہوئی’۔

واضح رہے کہ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن ایشیااوریورپ کے 8 روزہ دورے پر ہیں جس میں وہ بھارت،قطر اورسوئٹزرلینڈ کا دورہ بھی کریں گے۔

یہ پڑھیں: امریکا نے دہشت گرد گروپوں کی فہرست پاکستان کو فراہم کردی

واشنگٹن کے ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ‘امریکا اور پاکستان کے مابین حالیہ ملاقات سے ‘دونوں طرفہ سازگار ماحول’ پیدا ہوا ہے۔

ٹاون ہال اجلاس کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ریکس ٹلرسن امریکی وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھانے سے خوش ہیں تو انہوں نے کہا ‘وہ پاکستان سے سفارتی امور نبھانے میں لطف اندوز نہیں ہوتے’۔

ان کا کہنا تھا گزشتہ ایک دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تنزلی آئی لیکن ہمیں اس تعلق کو ایک ‘مشترکہ مفاد’ پرلاکر بحال کرناہے۔

واضح رہے کہ پاک امریکا تعلقات میں خرابی اس وقت شروع ہوئی جب امریکا نے 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی پر پاکستان کو اطلاع دے بغیر آپریشن کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاکستان سے توہین مذہب کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ

انہوں نے پاکستان سے متعلق امریکی تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان سے ہر امور پر غیر رسمی انداز میں بات چیت رہی، ہم نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے پاکستان کے استحکام اور مستقبل کس نوعیت کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاک-امریکا بات چیت کا محور جنوبی ایشیاء کے خطے میں امن اور استحکام تھا جس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے’۔

ریکس ٹلرسن نے وضاحت کی کہ امریکا کی افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی خالصاً ‘جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی کے خاتمے’ کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی حکمت عملی کے تحت امریکا افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی اور اپنی خدمات بغیر کسی ‘ٹائم فریم’ کے جاری رکھے گا۔

مزید پڑھیں:امریکا کا پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں سختی پر غور

امریکی وزیر خارجہ نے (طالبان پر) واضح کیا کہ ‘امریکا دہشت گردوں کے اختتام تک افغانستان حکومت کے ساتھ کھڑا رہے گا’۔

ان کاکہنا تھا کہ ‘اگر طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہوئے تو انہیں خوش آمدید کہاجائے گا تاکہ وہ (طالبان) افغان حکومت کے مستقبل کو بنانےمیں اپنا کردار ادا کرے’۔

امریکا اپنی نئی حکمت عملی کے تحت طالبان کو میدان جنگ میں شکست دینے کے لیے امن مذاکرات میں ان کی شمولیت پر زور دے رہا ہے اور اس عمل میں پاکستان کی مدد کا خواہاں ہے۔

ریکس ٹلرسن نے بتایا کہ امریکا کی نئی حکمت عملی میں دہشتگردوں کے‘محفوظ ٹھکانوں’کے لیے کوئی جگہ نہیں اور پاک افغان خطے میں متعدد دہشت گرد تنظیمیں اپنا نیٹ ورک چلا رہی ہیں’۔

انہوں نے مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘امریکا کی جنوبی ایشیاء سے متعلق پوری پالیسی یہ ہے کہ ایسے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کیا جائے جہاں وہ (دہشت گرد) نئے جنگجو کو بھرتی کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں اور ہمارے اتحادیوں، گھروں پر حملہ کرتے ہیں’۔


یہ خبر 14دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں