انجانے میں ہوئی لمحے بھر کی غفلت کبھی کبھی کتنی بڑی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، یہ کوئی مجھ سے پوچھے جو اِس وقت سڑک کنارے ایک سگنل کے نیچے کھڑا حیرانی و پریشانی کے عالم میں اِس بے ہنگم ٹریفک کو دیکھ رہا ہے۔

سڑک کراس کرنے کے خیال سے ہی میری روح فناء ہورہی تھی، مجھ پر یہ خوف سوار تھا کہ جیسے ہی سڑک کی دوسری طرف جانے کو آگے قدم بڑھاؤں گا تو کوئی نہ کوئی گاڑی مجھے بیچ سڑک پر کُچلتے ہوئے گزر جائے گی۔

اِس خوف میں مُبتلا ہونے کی وجہ وہ تمام مناظر تھے جو کچھ دیر یہاں کھڑے رہ کر دیکھ چکا تھا۔ ایک تو اکثر و بیشتر لوگ ٹریفک قوانین کے احترام سے ناواقف دکھائی دے رہے تھے، سب اپنی اپنی مرضی کے مطابق سڑک کا سہی اور غلط استعمال کررہے تھے اور اُنہیں یوں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے اُنہیں پیدل چلنے والے راہ گیروں کا ذرا برابر بھی خیال نہیں، میں نے نجانے کتنے پیادل لوگوں کو حادثے سے بچتے ہوئے دیکھا۔

تھوڑی دیر بعد پیدل چلنے والے لوگوں سے ہمدردی کے اِس خیال پر بھی اُس وقت پانی پھر گیا جب میں نے اُن کو تیز رفتار گاڑیوں کی کوئی پرواہ کیے بغیر سڑک کراس کرتے دیکھا۔ سڑک پر یہ مناظر دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے گاڑی والے اور پیدل چلنے والے ایک دوسرے کی مزاج سے بخوبی واقف ہیں اور ایک طرح سے ایک دوسرے کی رفتار کو ناپ لیا ہے، لیکن پھر بھی کئی حادثے ہونے سے بال بال بچے تھے۔

اب اگر کوئی خود اپنی کسی غیر ذمہ دارانہ حرکت کے باعث کسی حادثے کا شکار ہونے کی کوشش کرے تو اُن کی اِس بیوقوفی پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ لہٰذا اِس صورتحال سے بیزار ہوکر میں نے اِس خیال سے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا کہ بھلا لوگوں کی اِس مایوس کن حالت پر غور کرتے ہوئے اپنا خون کیوں جلاؤں؟

لوگوں کے ہجوم اور بے ہنگم تیز رفتار ٹریفک سے میری بوکھلاہٹ جان کر آپ قطعی یہ مت سوچیے کہ میں کسی گاؤں سے پہلی بار شہر آیا ہوں، ایسا ہرگز نہیں، میں تو اُس مُلک سے آیا تھا جہاں آپ کے ملک کے لوگ سوتے تو سوتے، جاگتے ہوئے بھی وہاں جانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ جی ہاں میرا تعلق امریکا سے ہے۔

میں دو روز قبل ہی اپنے باس کے ہمراہ پاکستان آیا تھا اور میرے باس امریکا میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز افسر ہیں اور اُن کا یہ دورہ بھی کچھ خاص سرکاری امور نمٹانے سے متعلق ہے۔ اِن دو دنوں میں، میں نے اُنہیں مُسلسل میٹنگز اور مُلاقاتوں میں ہی مصروف دیکھا اور مُجھ سے اُن کی محبت کا یہ عالم تھا کہ امریکا تو امریکا یہاں بھی وہ ہر لمحہ مجھے اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ اِن دو دنوں کے دوران وہ جس کسی میٹنگ یا کسی سے اہم مُلاقات کے لیے باہر کہیں گئے تو مجھے ہمیشہ ساتھ لے گئے، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی اُنہیں مجبوراً مجھے گاڑی میں چھوڑ کر جانا پڑتا تھا۔

اُن کا یوں اکیلا چھوڑ کر جانا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میں نے کبھی بھی اِس بات کا بُرا نہیں منایا، کیونکہ میں اُن کی یہ مجبوری سمجھ سکتا تھا کہ وہ مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے لہٰذا میں چُپ چاپ گاڑی کے اندر بیٹھا اُن کی واپسی کا انتظار کرتا رہتا۔ ملاقاتوں سے فراغت کے بعد وہ مجھ سے اِس قدر والہانہ انداز میں ملتے کہ جیسے ہم برسوں کے بچھڑے ہوں۔ اُن کی اِس بے انتہا محبت کو دیکھ کر گاڑی میں گزاری گئیں انتظار کی گھڑیوں کی کوفت دور ہوجاتی تھی۔

آج دن اتنا بدقسمت ہوگا سوچا ہی نہیں تھا۔ اصل میں آج میرے باس کو کسی اجلاس یا میٹنگ کے لیے نہیں جانا تھا، تو وہ دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی بہت شاپنگ کی غرض سے مجھے لیکر اپنی حفاظت پر معمور تمام سیکورٹی گارڈز کے ہمراہ باہر شاپنگ مال کی جانب نکلے۔ شاپنگ کرکے مال سے باہر ہی نکلے تھے کہ خُدا جانے کوئی ہنگامہ ہوا تھا یا کوئی جھگڑا، اچانک لوگوں میں ایک عجیب سی بھگدڑ مچ گئی، جبکہ کسی جانب سے گولیاں چلنے کی بھی آوازیں آنے لگیں۔

یوں تو ہماری حفاظت کے لیے بھی گارڈز کی ایک نفری موجود تھی مگر آپ کو پتہ ہے کہ حالت خطرے میں محسوس ہو تو انسان ہو یا حیوان، وہ سب سے پہلے اپنے حواس کھو دیتا ہے لہٰذا پتہ نہیں کس لمحے ہم آگے پیچھے ہوئے اور میں باقیوں سے الگ ہوگیا۔ شاپنگ مال کے پاس بھٹکتا رہا اور پھر اپنے باس کے نہ ملنے پر مایوس ہوکر بھٹکتے ہوئے اِس سڑک کنارے پہنچ گیا تھا۔

مجھے پورا یقین تھا کہ میری گمشدگی کی یہ حالت زیادہ دیر قائم رہنے والی نہیں، میرے باس میرے یوں کھوجانے پر نیم پاگل ہوچکے ہوں گے۔ لیکن ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دو پولیس وین شور مچاتی ہوئیں میرے قریب سے گزریں، اور پھر چند میٹر دور اُنہوں نے ٹریفک کے سبھی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیچ سڑک پر اچانک کچھ اس طرح سے بریک لگایا جیسے وہ کسی بڑے چور کو پکڑنے کے لیے جارہے ہیں۔

مگر میرا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کیونکہ ایک وین سے اُن کا افسر نکلا اور اُس نے میرا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پہلے تو میرے حُلیے کو دیکھا کہ غیر مُلکی ہوں بھی یا نہیں؟ پھر میرے گلے میں لٹکے لاکٹ کو جانچا جو میرے باس نے مجھے تحفتاً دیا تھا، جس پر میرا نام بھی کندہ تھا۔ جب افسر کو یقین ہوگیا کہ میں وہی ہوں جن کی اُنہیں تلاش ہے تو اُس نے فرطِ جذبات سے آگے بڑھ کر مجھے اپنی گود میں اُٹھا لیا اور پھر وین کی طرف بڑھ گیا۔ اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے ایک پولیس اہلکار کو پیچھے جانے کا اشارہ کیا اور مجھے اگلی سیٹ پر براجمان کردیا۔ پولیس وین کے سائرن جگمگانے لگے اور اب ہماری منزل تھی پولیس اسٹیشن۔

مجھے پولیس والوں کے رویے سے کسی حد تک تسلی ملی اور اطمینان ہوا، لیکن تمام تر تسلی اور اطمنان اُس وقت ہوا ہوگیا جب ہم تھانے کے اندر داخل ہوئے، لاک اپ سے کسی کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں جیسے کسی کو بُری طرح مارا پیٹا جارہا ہو۔

میرے سر پر اب یہ خوف سوار ہوگیا کہ کہیں یہ مجھے کوئی مجرم سمجھ کر تو نہیں یہاں لے آئے؟ لیکن پھر سوچا کہ اگر مجرم ہوتا تو یوں اتنے لاڈ پیار کے ساتھ اگلی سیٹ پر راجہ بنا کر تھوڑی یہاں لایا جاتا؟ میں نے خود کو تسلی دی کہ نہیں ایسا نہیں مجھے انہوں نے کوئی مجرم نہیں سمجھا۔

پولیس افسر مجھے اپنے کمرے میں لے گئے اور اپنے سامنے رکھی ایک کرسی پر بٹھا دیا، مگر میرے بیٹھنے سے قبل ایک کانسٹبیل اپنی جیب سے اپنا رومال نکال کر اُس کرسی کو صاف کرنا نہیں بھولا تھا۔ ایسا پروٹوکول ملنے پر میری گردن میں بھی ایک عجیب سی اکڑ آگئی۔

اچانک ایک پولیس اہلکار کسی شخص کو گریبان سے پکڑے اور تھپڑ رسید کرتے ہوئے افسر کے کمرے میں داخل ہوا، اہلکار نے پولیس افسر سے کہا کہ، ’سر ہر طرح سے اُگلوا کر دیکھ لیا مگر یہ اپنا جُرم قبول ہی نہیں کر رہا‘، پھر مجرم کو وہیں پیچھے چھوڑ کر پولیس افسر کی جانب تھوڑا سا جُھکتا ہوا سرگوشی میں بولا، ’سر ہے تو یہ ویسے بھی بے گناہ، لیکن ہم نے ایک مجرم کی طرح ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے اچھی خاصی پٹائی بھی کر ڈالی ہے اب کیا کرنا ہے؟ اِس کے گھر والے آئے ہیں اور اِسے چھوڑ دینے کے لیے مِنت سماجت کررہے ہیں، اُن سے کچھ لین دین کی بات کروں؟‘ تو افسر نے بھی سرگوشی کے انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا ٹھیک ہے مگر پچاس ہزار سے کم پر بالکل راضی نہیں ہونا، اگر اِس کے گھر والے نہ دیں تو کسی بھی واردات کا پرچہ کاٹ کر کل عدالت میں پیش کردو!‘ پولیس اہلکار اُس شخص کو لے کر واپس باہر نکل گیا۔

دوسری جانب سے آتی ہوئی ایک اور چیخ و پکار سے اندازہ ہوگیا کہ مزید پچاس ہزار کے لیے کسی دوسرے بیچارے پر محنت کی جارہی ہے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے شدید افسوس ہوا کہ بڑے مجرمان کے لیے یہاں کوئی سزا ہو یا نہ ہو، مگر یہاں بے گناہ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ہزاروں روپے ضرور خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

خیر افسر کے کمرے میں بیٹھے مجھے اب 20 سے 25 منٹ ہوچکے تھے، اتنی دیر میں یہاں پانچ مختلف لوگ لائے جاچکے تھے جن میں سے دو کی شکلیں دیکھ کر تو میں خود بھی ڈر گیا تھا، وہ تو شکل سے ہی بڑے مجرم لگ رہے تھے، میرا یہ خیال اُس وقت دُرست بھی ثابت ہوگیا جب پولیس افسر نے اُنہیں سرزنش کرتے ہوئے کہا، ’یار جمال بھائی تم کو پہلے بھی کتنی بار بول چکا ہوں ذرا محتاط ہوکر واردات کیا کرو یہ تو شُکر ہے کہ میرے علاقے میں پکڑے گئے‘، کچھ دیر بات چیت ہوئی اور اُن دونوں قاتل نما اشخاص کی جانب سے ایک لفافہ دیے جانے پر اُنہیں پورے باعزت طریقے سے رُخصت کردیا گیا۔

ابھی ایک کانسٹیبل نے میرے سامنے پلیٹ میں میرے پسندیدہ بسکٹ سجا کر رکھے ہی تھے کہ تھانے میں ایک بار پھر افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا، اِس بار یہ افراتفری میری باس کے آنے پر تھی۔ باس مجھے یوں پولیس افسر کے سامنے بیٹھا دیکھ کر بے قراری سے آگے بڑھے اور مجھے گلے سے لگا لیا۔ تھوڑی دیر بعد جب میں اپنے باس کے ہمراہ تھانے سے باہر نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا تو میری نظر چار سے پانچ پولیس اہلکاروں پر پڑی جو ایک شخص کو بُری طرح مارتے پیٹتے پولیس وین سے نیچے اُتار رہے تھے۔

اُن پولیس اہلکاروں میں سے ایک اُس شخص کے گریبان کو پکڑ کر اپنی جانب گھسیٹنے لگا، گریبان پر مضبوط گرفت کے باعث اُس کا دم گُھٹنے لگا، اور وہ بیچارہ لڑکھڑاتا ہوا وہیں زمین پر گِرگیا۔ کچھ دیر قبل میرے ساتھ اِنہی پولیس اہلکاروں اور اُن کے افسر کے جس رویے کے سبب میری گردن میں جو اکڑ آئی تھی وہ اُس شخص کی ایسی دُرگت بنتی دیکھ کر خود بہ خود ڈھیلی پڑ گئی اور اب میری نظریں ایک مرتبہ پھر اُنہی پولیس والوں پر تھیں جو زمین پر گرے ہوئے اُس شخص کو اُٹھا کر ایک بار پھر اُسی طرح گریبان کو پکڑے ہوئے تھانے کے اندرونی احاطے میں داخل ہورہے تھے۔

اُن کے ہاتھوں کی ایسی گرفت دیکھ کر مجھے اُس شخص پر رحم آنے لگا تھا۔ میرے باس نے تو شدید ترین غصے کی حالت میں بھی کبھی میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا تھا۔ اپنے باس کے چہرے پر محبت پاش نظریں ڈالتے ہوئے جب میں گاڑی میں بیٹھ رہا تھا تو انسانوں کے ساتھ ایسا حیوان صفت سلوک ہوتا دیکھ کر شکر ادا کیا کہ اچھا ہے کہ میں ایک ’کُتا‘ ہوں۔

تبصرے (2) بند ہیں

rizwan khan Dec 20, 2017 04:26pm
A video should be made on this real story. Every thing is unbelievable but very true. this is our culture, this is thana culture, one thing is missing how the innocent patients are being killed by the movement of these beast v.i.ps...., the last sentence is a strong blow and slap on our today's culture.
زاہد بٹ Dec 20, 2017 04:43pm
افسانہ تھا، مگر حقیقت بیان کر گیا۔ بہت خوب !