شراب یا مے کو ’بادہ‘ پکارنے کی وجہ یہ ہے کہ اسے منہ لگانے والا اپنے آپ میں نہیں رہتا گویا اس کے دماغ میں باد (ہوا) سما جاتی ہے اور وہ ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے۔
علی اسٹور کے دروازے پر ہی رک گیا، ‘آپ کا مطلب اس فلیٹ پر سایہ وغیرہ ہے کیا؟' اشرف اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے بولا، ‘ارے بس سنی سنائی باتیں ہیں وہ فلیٹ ذرا بھاری ہے’۔
مصر ہو یا اُردن، جاپان ہو یا چین، ان میں کسی ملک کو کوئی پریشانی نہیں کہ ہمارا نام تو یہ ہے اور دنیا ہمیں فلاں نام سے کیوں پکار رہی ہے تو پھر انڈیا کیوں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتا ہے؟
پیسہ جہاں بہت سے پردے ڈالتا ہے وہاں بہت سے پردوں کے چیتھڑے بھی اڑا دیتا ہے اور یہ سب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں سڑک پر چلتے کسی ہوٹل میں کھانا کھاتے، کسی سگنل پر رکتے دیکھتے رہتے ہیں۔
کہنے والے نے کہا تھا ’وقد یحسن الانسان من حیث لایدری‘ یعنی کبھی انسان نادانستہ طور پر بھی اچھا کام کر لیتا ہے، اردو میں اس صورت کو ’شر سے خیر برآمد ہونا‘ کہتے ہیں۔