پشاور: خیبر پختونخوا کی وزارت خزانہ نے اُمید کا اظہار کیا ہے کہ پینشن نظام میں کی جانے والی اصلاحات سے پینشنرز کی تعداد میں 30 ہزار کے قریب کمی واقع ہوگی جس کے ذریعے صوبائی حکومت 8 ارب روپے سالانہ بچا سکے گی۔

متعلقہ حکام نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ صوبے میں پینشن کے بڑھتے ہوئے بل پر پریشان ہے جس کے ذریعے سالانہ 53 ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس رقم کو بچانے کے لیے صوبائی حکومت نے پینشن قوانین میں ترمیم پیش کرتے ہوئے اسٹرکچرل اصلاحات کا آغاز کیا ہے جس میں پینشنرز کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ بنایا جائے گا اور پیمنٹ کے طریقے کو ایک بینک سے ختم کرتے ہوئے انفرادی اکاؤنٹ میں منتقل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: اے ٹی ایم سے پینشن وصولی، معمر افراد کو دشواری

خیبر پختونخوا کے سیکریٹری خزانہ شکیل قادر خان نے ڈان کو بتایا کہ محکمہ خزانہ پینشنر ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کررہا ہے اور اب تک 1 لاکھ 27 ہزار افراد کا ریکارڈ کمپیوٹرائزد کیا جا چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے سے گھوسٹ پینشنرز اور مشکوک کیسز ختم ہوجائیں گے جس کی وجہ سے پینشن وصول کرنے والوں کی تعداد 1 لاکھ 70 ہزار سے کم ہوکر 1 لاکھ 35 ہزار تک ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ خزانہ بینک اکاؤنٹ کی بنیاد پر پینشن کی ترسیل کرنے کے لیے کام کررہا ہے جس کے ذریعے گھوسٹ پینشنرز کا خاتمہ ہوجائے گا۔

سیکرٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ محکمہ نے پینشن قوانین میں ترمیم کے حوالے سے پیشکش کو وفاقی حکومت کو بھجوادیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پینشنر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے؟

سیکریٹری کا کہنا تھا کہ محکمے کو تشویش ہے کہ وفاقی حکومت کے کچھ اہلکاروں کو بھی ہمارے محکمے سے پینشن جاری ہورہی ہیں جس کے لیے وفاقی حکومت کے سے مصالحت کے تحت کام کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے پینشن فنڈ میں شرح نمو بہت سست تھی۔

پینشن پیمنٹ سسٹم کو خودکار بنانے کے منصوبے کے مینیجر نوید عالم نے ڈان کو بتایا کہ پینشن بجٹ کا تخمینہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفیسرز کی جانب سے لگایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی اے اوز کو بینک کی جانب سے دی گئی رسید کا پوسٹ پیمنٹ آڈٹ کرنا ہوتا ہے تاہم گنجائش کی کمی کی وجہ سے یہ نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا کہ پینشنرز اب تک صرف نیشنل بینک کے ذریعے اپنی رقم وصول کرتے ہیں لیکن انہوں نے دیگر بینکوں سے بھی آسان ایکٹویشن کے طریقہ کار والا اے ٹی ایم مہیا کرنے کے لیے ملاقاتیں کی ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا کا 603 ارب روپے کا بجٹ پیش

انہوں نے بتایا کہ ہم ایک پائلٹ منصوبے کی شروعات کر رہے ہیں جس کے ذریعے ضلع پشاور، چارسدہ اور مردان کے تمام پینشنرز کی جنوری 2018 تک بائیو میٹرک تصدیق کی جائے گی اور کچھ مہینوں میں اس منصوبے کو دیگر اضلاع تک بھی پہنچایا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ 1 لاکھ 27 ہزار پینشنرز میں سے 85 ہزار 1 سو 3 افراد زندہ ہیں جبکہ باقی 42 ہزار کیسز میں ان کے اہل خانہ رقم وصول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک کیس آیا تھا جس میں 1932 میں پیدا ہونے والا ایک شخص 1988 میں ریٹائر ہوا تھا اور اس کا 2003 میں انتقال ہوا جس کے بعد اس کی اہلیہ نے 2014 تک پینشن وصول کی اور بعد ازاں اس کی 52 سالہ بیوہ بیٹی کو یہ رقم دی جارہی تھی۔


یہ خبر 22 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں