اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کی۔

درخواست گزار کی جانب سے راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

وزارت داخلہ نے درخواست پر جواب جمع کرایا جو ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے پڑھ کر سنایا۔

جواب میں کہا گیا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ملی مسلم لیگ پہلے لشکر طیبہ اور پھر جماعت الدعوۃ کے نام سے کام کر رہی تھی۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ اس پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد یہ نئے نام سے پارٹی رجسٹر کرانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ کی ملی مسلم لیگ پر پابندی کی تجویز

ملی مسلم لیگ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے مطابق ہر کام کر رہے ہیں اور ملی مسلم لیگ کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہی۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

خیال رہے کہ ملی مسلم لیگ پر کالعدم جماعت الدعوۃ سے منسلک ہونے کا الزام ہے جس پر الیکشن کمیشن نے ان کی سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹریشن کی درخواست کو منسوخ کردیا تھا بعد ازاں ایم ایم ایل نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

11 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کردی تھی، یہ فیصلہ اس سے قبل وزارت داخلہ کی جانب سے کمیشن میں جمع کرائے گئے جواب کے بعد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے ملی مسلم لیگ پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

8 اگست 2017 کو کالعدم جماعت الدعوۃ نے نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی میدان میں داخل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ سے منسلک رہنے والے سیف اللہ خالد کو اس پارٹی کا پہلا صدر منتخب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ملی مسلم لیگ رجسٹرڈ سیاسی جماعت نہیں، الیکشن کمیشن

واضح رہے کہ ملی مسلم لیگ پر الزام ہے کہ اسے کالعدم جماعت دعوۃ کے نظر بند امیر حافظ سعید کی پشت پناہی حاصل ہے جن پر 2008 کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام لگایا جاتا ہے اور ان کے سر کی قمیت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی گئی تھی۔

ملی مسلم لیگ پر پابندی لگانے کے اقدام کا مقصد بظاہر شدت پسندوں کو آئندہ سال ہونے والے الیکشن کے دوران ملک کی مرکزی سیاست سے دور رکھنا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں