اسلام آباد: پشاور میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) شہدا کے لواحقین نے ایک مرتبہ پھر حملے کے ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ دوہرادیا۔

سانحہ پشاور میں شہید بچوں کے والدین اور رشتے داروں کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ‘متاعِ حیات’ کی رونمائی کے موقع پر شہید اسفند خان کی والدہ شابانہ عظمت نے کہا کہ ‘سانحہ کے بعد صرف پیادوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے’۔

واضح رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں حملہ کرکے 150 افراد سمیت 132 طلبعلم شہید کردیئے تھے جن کی عمریں 8 سے 18 برس کے درمیان تھی۔

یہ پڑھیں: اے پی ایس سانحے کو 3 سال مکمل، اسکول میں دعائیہ تقریب

شابانہ عظمت کا کہنا تھا کہ ‘سانحہ پشاور کے منصوبہ ساز آج بھی بے نقاب نہیں ہوئے، ہم اپنے شہید بچوں کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی انصاف فراہم کرنے میں راضی نہیں، یہ بہت عجیب ہے کہ کوئی سانحے کی تفصیلات بتانے پر بھی آمادہ نہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ سانحے کا منصوبہ ساز کون تھا؟’

سانحہ اے پی ایس کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاتعداد بچوں کو درجن بھر گولیاں ماری گئیں جبکہ متعدد ایسے بھی متاثرین تھے جن کے جسم پر چار اور چھ گولیاں اتار دی گئیں’۔

انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں بتایا جائے کہ پاک آرمی کے زیر اتنظام کنٹومنٹ علاقے میں اسلحہ کی اتنی بڑی تعداد اسکول میں کیسے پہنچی؟’

یہ بھی پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: عدالت نے ریکارڈ سمیت تفتیشی افسر کو طلب کرلیا

شابانہ عظمت کا کہنا تھا کہ ‘سانحہ اے پی ایس جیسا واقعہ محض ایک دن کی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں، اس کے پس منظر میں بڑے ہاتھ ہیں جس کی تیاری میں کسی منصوبہ سازکا ہاتھ ہے’۔

انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ‘سانحہ اے پی ایس میں شہید ان کے بیٹے کی عمر 15 تھی’۔

انہوں نے پرعزم انداز میں اپنی بات دوہرائی کہ ‘ایک ماں اپنے نوعمر بیٹے کو کیسے مرتا دیکھ سکتی ہے؟ ہم انصاف چاہتے ہیں اور انصاف کی عدم دستیابی تک اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے’۔

مزید پڑھیں: اے پی ایس حملے کےبعد پاکستان میں بڑے خونی واقعات

اے پی ایس شہدا فورم کے جنرل سیکریٹری اور وکیل عجون خان نے متاثرہ لواحقین کی مدیت میں سانحہ اے پی ایس پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے متعدد پٹیشنز فائل کیں لیکن وہ سیاسی حلقوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

وکیل عجون خان نے بتایا کہ ‘گزشتہ برس ہم نے اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے ملاقات کی جس میں انہوں نے یقین دہائی کرائی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر سانحہ اے پی ایس کے لواحقین سے وزیراعظم کی ملاقات کرائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور اسی حوالے سے لواحقین نے ستمبر 2016 کو دارالحکومت میں احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا’۔

انہوں نے بتایا کہ ‘سانحہ اے پی ایس کے لواحقین نے دوہفتے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام سے ملاقات کی اور انہوں نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی یقین دہانی کرائی لیکن تاحال متعدد مرتبہ ان سے رابطے کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا’۔

رابعہ رحمٰن کی تصنیف ‘متاعِ حیات’ کی رونمائی نیشنل پریس کلب (این پی ایس) میں منعقد ہوئی جس میں سابق وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان، گلگت بلتستان کے ڈپٹی اسپیکر جعفر اللہ خان سمیت صحافیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر مصنف رابعہ رحمٰن نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس میں شہید بچوں کے والدین اور رشتے داروں سے ملاقات اور ان کی باتیں سن کر وہ متعدد مرتبہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکیں۔


یہ خبر 24 دسمبر 2017 کو ڈان اخبارمیں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں