سپریم کورٹ کے جسٹس دوست محمد اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وکلا کی ہڑتالوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وکیلوں کو اگر ٹریفک وارڈن چالان کرے تو اگلے دن ہڑتال کردیتے ہیں جبکہ اسلام میں ہڑتال کا کوئی تصور نہیں اور وکلا اس طرح آئینی نظام کی بھی نفی کردیتے ہیں۔

جسٹس دوست محمد اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 21 جون 2016 کو وہاڑی میں ایک شخص کو زخمی کرنے والے ملزم کی ضمانت کے لیے دائر درخواست کی سماعت کر رہے تھے اور اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام میں ہڑتال کاتصور نہیں ہے، وکیل عدالتوں میں پیش نہ ہو کر آئینی نظام کی بھی نفی کرتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ وکلا جس دن پیش نہیں ہوتے اس دن کی تنخواہ ہم پر حرام ہو جاتی ہے۔

سپریم کورٹ میں مقدمات میں التوا اور وکلا کی ہڑتالوں پر ججز نے سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے۔

جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ وکیل کا ٹریفک والے چالان کریں تودوسرے دن ہڑتال کردیتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آج وکلا، کل پراسیکیوٹرز پھر جج بھی ہڑتال کریں گے، جب میں چیف جسٹس بلوچستان تھا تو ایک دن بھی ہڑتال نہیں ہونے دی کیونکہ ہمیں انصاف کی فراہمی کویقینی بنانا ہے۔

جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ 20 سال پرانی بار کونسل کا نظام لے آئیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا، نجی لا کالجز وکیل نہیں بلکہ بارممبران پیدا کر رہی ہیں۔

مقدمے میں پیش ہونے والے وکیل ذوالفقار ملوکا نے کہا کہ اس طرح کے رویے سے وکلا کی بدنامی ہو رہی ہے اس لیے ہڑتال نہیں ہونی چاہیے تاہم عدلیہ بحالی تحریک کے بعد کچھ وکیل بے قابو ہوگئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی تحریک اور وکلا ہڑتال میں بہت فرق ہے، عدلیہ بحالی ایک آئینی موقف تھا، عدلیہ بحالی تحریک آئین کی بحالی کے لیے تھی، نظام کو درست کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا، یہاں لوگ خوشی میں گالیاں دیتے ہیں جیسے دھرنے والے کیس میں ہم نے دیکھا جس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ وہ گالیاں مسنون گالیاں ہوں گی۔

سپریم کورٹ نے ملزم وقاص کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔

خیال رہے کہ ملزم وقاص پر 21 جون 2016 کو مقصود نامی شخص کو وہاڑی میں زخمی کرنے کا الزام ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں