2017 میں طب کے شعبے کی بہترین دریافتیں

30 دسمبر 2017
— کریٹیو کامنز فوٹو
— کریٹیو کامنز فوٹو

ہر گزرتے سال کے ساتھ انسانی صحت میں بہتری لانے کے لیے سائنسدانوں کی جانب سے متعدد کوششیں کی جاتی ہیں۔

2017 بھی ان برسوں میں سے ایک ہے جس کے دوران طبی میدان کے کئی شعبوں میں زبردست پیشرفت دیکھنے میں آئی، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

بے خوابی کے علاج کی جانب ایک اور مثبت قدم

دنیا بھر میں کروڑوں افراد مناسب وقت تک سونے کے لیے جدوجہد کا شکار رہتے ہیں، جس کی وجہ حد سے زیادہ کھانا، موٹاپا، ذیابیطس، امراض قلب اور روزمرہ کے مسائل کا تناﺅ ہوتا ہے۔ ہماری نیند بنیادی طور پر جسم کی اندرونی گھڑی سے جڑی ہوتی ہے اور اب سائنسدانوں نے نہ صرف وہ جین دریافت کیا ہے جو ہماری اس حیاتیاتی گھڑی کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ وہ میکنزم بھی ڈھونڈ لیا ہے جس کے ذریعے یہ جین کام کرتا ہے۔ نیند کی صحت اور شخصیت کے لیے اہمیت کے پیش نظر توقع ہے کہ اس دریافت سے مستقبل قریب میں انسانی صحت کو بہتر بنانے میں نمایاں مدد ملے گی۔

ہیپاٹائٹس سی کا علاج

2017 میں ایک تاریخ ساز تحقیق کے دوران وہ سنگل ریسیپٹر سیل انسانی جسم میں دریافت کیا گیا جو کہ ہیپاٹائٹس سی کی شناخت کرسکتا ہے جو کہ جگر کے مختلف مسائل کا باعث بن کر موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ یہ سنگل سیل اس مرض کے علاج یا روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری کی جانب اہم قدم ہے، اس سے ہٹ کر بھی امریکا میں ایک نئی دوا کی منظوری دی گئی ہے جو کہ ہیپاٹائٹس سی کے علاج میں مدد دیتی ہے۔ Mavyret نامی یہ دوا آٹھ ہفتوں کے لیے مریضوں کو استعمال کرائی جاتی ہے اور محققین کے مطابق اس کی منظوری کے بعد اس مرض کے جلد علاج میں مدد ملے گی۔

بریسٹ کینسر کا علاج

گزشتہ سال برطانوی سائنسدانوں نے دو ادویات تیار کی تھیں جو بریسٹ کینسر کی جارحانہ قسم کی رسولی کے حجم کو ڈرامائی حد تک کم کرنے کی طاقت رکھتی تھیں، اس سال امریکا میں اسی طرح کی ایک نئی دوا Nerlynx کی منظوری دی گئی جو فی الحال اس کینسر کے ابتدائی مراحل سے گزرنے والے مریضوں کو استعمال کرائی جارہی ہے، جس کا مقصد کینسر کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے خطرے کو کم کرنا ہے۔

کولیسٹرول کے بارے میں نئی معلومات

اگر ڈاکٹرز کہیں کہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ چکی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایل ڈی ایل ریڈنگ (صحت کے لیے نقصان دہ سمجھے جانے والا کولیسٹرول) جمع ہوکر شریانوں میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے، جو کہ امراض قلب اور فالج کا خطرہ بڑھاتا ہے خون میں اس کی سطح 200 ملی گرام سے کم سطح صحت مند سمجھی جاتی ہے، کچھ نئی ادویات کے امتزاج سے اس کی سطح کو 75 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے مگر کیا یہ صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟ 2017 میں کلیولینڈ کلینک کے ماہرین نے دریافت کیا کہ ایل ڈی ایل کی سطح بہت زیادہ کم ہونا درحقیقت خون کی شریانوں کے مسائل، ہارٹ اٹیک اور فالج سے موت کا خطرہ 20 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کی نئی تعریف

دہائیوں سے کہا جارہا ہے کہ اگر کسی شخص کے خون کا دباؤ 140/90 سے اوپر ہوجائے تو وہ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو جاتا ہے اور اسے علاج شروع کرادینا چاہئے۔ مگر اب امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن اور امریکن کالج آف کارڈیالوجی نے بلڈپریشر ریڈنگ کے حوالے سے نئی گائیڈلائنز جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی انسان کے خون کا دباﺅ 129/79 سے زیادہ ہے تو یہ ہائی بلڈ پریشر تصور کیا جائے گا۔ یعنی اگر بلڈ پریشر اس نمبر سے زیادہ ہو مگر140/90 سے کم، تو بھی یہ فشار خون کی پہلی اسٹیج تصور کی جائے گی جس کے نتیجے میں طرز زندگی میں تبدیلیاں بھی ضروری ہوتی ہیں جیسے زیادہ ورزش اور غذا میں تبدیلی۔ لو بلڈ پریشر 60/90 سے کم کو سمجھ جاتا ہے اور صحت مند افراد کا بلڈ پریشر 80/120 سے کم ہونا چاہیے۔

بچوں کے کینسر کے علاج میں پیشرفت

بچوں میں خون کا کینسر کافی عام مرض ہے اور اسے کافی حد تک ناقابلِ علاج تصور کیا جاتا تھا، مگر اب امریکا میں نئے تاریخ ساز طریقہ علاج کے بعد یہ مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔ CAR T-Cell Therapy نامی اس طریقہ علاج کی منظوری حال ہی میں امریکا میں دی گئی، جس میں جسم کی قوت مدافعت کو کینسر زدہ خلیات سے لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج سے گزشتہ دس سال سے کینسر سے لڑنے والے پندرہ سالہ لڑکے کو ایک ماہ کے اندر اتنا صحت مند کردیا کہ اس کا بون میرو ٹرانسپلانٹ ممکن ہوگیا اور زندگی بچ گئی۔

دانتوں کی فلنگ ماضی کا قصہ بننے کے قریب

کنگز کالج لندن کی تحقیق میں محققین نے الزائمر کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی ایک دوا کو دریافت کیا جو دانتوں کے اندر ایک تحریک پیدا کرکے ایسا نیا مادہ قدرتی طور پر تیار کرتی ہے جو کہ بڑی کیویٹیز کو بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دوا کا استعمال پہلے ہی الزائمر امراض کے علاج کے لیے آزمائشی بنیادوں پر ہورہا ہے مگر یہ دانتوں کے فوری علاج کے لیے حقیقی موقع فراہم کرتی ہے۔ محققین نے تحقیق میں دریافت کیا کہ اس قدرتی مرمت کے عمل کو اس دوا Tideglusib کے ذریعے تحریک دی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس دوا کے نتیجے میں فلنگ کی ضرورت بہت کم رہ جائے گی اور لوگوں کو اس مہنگے علاج کی بجائے سستی دوا کے ذریعے دانتوں کے مسائل سے نجات مل سکے گی۔

ایچ آئی وی سے نجات

اس وقت ایچ آئی وی کے علاج سے اس وائرس کے شکار لوگوں کو زیادہ عرصے تک زندہ رہنے میں تو مدد دی جاتی ہے مگر اس سے مکمل نجات حاصل نہیں ہوپاتی۔ امریکا میں ایک حالیہ تحقیق کے دوران ایچ آئی وی وائرس کے خاتمے کے لیے ایک نیا طریقہ کار تشکیل دیا گیا، جس میں اس وائرس کے ذخائر کو ختم کیا جاتا ہے۔ ابھی تک جانوروں میں اس کے کامیاب تجربات کیے گئے ہیں اور مستقبل قریب میں انسانوں پر بھی اس کی آزمائش کی جائے گی۔

مصنوعی لبلبے کی تیاری

ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین نے یہ مصنوعی لبلبہ تیار کیا ہے جو کہ ایک انسولین پمپ اور گلوکوز مانیٹر پر مشتمل ہے، جسے جِلد کے اندر نصب کیا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں ایک الگورتھم کو اسمارٹ فون پر استعمال کرکے جسم میں گلوکوز کی سطح کو مسلسل مانیٹر کیا جاسکتا ہے جبکہ خودکار طور پر مناسب مقدار میں انسولین کی مقدار کو بھی جسم تک پہنچایا جاسکتا ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ عام طور پر ذیابیطس ٹائپ ون میں مریض کا لبلبہ انسولین بنانے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے مسلسل بلڈ گلوکوز کی سطح کو مانیٹر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ انسولین کے انجیکشن لگانے پڑتے ہیں۔

انسانی جسم کا نیا عضو دریافت

سو سال کے علم الاعضاء کے خیالات کی نفی کرتے ہوئے اس سال جسم کے اندر ایک نیا عضو دریافت کیا گیا۔ آئرلینڈ کے محققین نے آنتوں کی جھلی یا mesentery کو دریافت کیا تھا جسے پہلے ٹشوز کا بے ربط یا ٹوٹا ہوا حصہ مانا جاتا تھا، مگر 2017 میں اسے ایک عضو کا درجہ دے دیا گیا۔ درحقیقت یہ بے ربط جھلی نہیں بلکہ ایک مکمل عضو ہے جو ٹشوز سے منسلک ہے۔ اس سے قبل انسانی جسم میں 78 اعضاء تھے اور یہ جھلی 79 واں عضو قرار پائی۔

تبصرے (0) بند ہیں