اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی میں موجود سینیٹرز نے وفاقی حکومت نے اب تک سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس پر اپنا کنٹرول رکھنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 158 کے مطابق صوبوں میں پیدا ہونے والے قدرتی وسائل پر پہلا حق انہی صوبوں کا ہے۔

کمیٹی کے قائم مقام چیئرمین سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم جو اعداد و شمار دیکھتے ہیں اور ہم جو مشاہدہ کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ صوبوں میں گیس پیدا کرنے والی صنعتوں کو قدرتی گیس کے بجائے ریگیسیفائڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: گیس پریشر میں کمی کے خلاف سینیٹ ارکان کا احتجاج

اجلاس میں خیبرپختونخوا کے صنعتکاروں کی شکایات پر تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ انہیں اووربلنگ کا سامنا رہا جبکہ گیس کمپنیوں کی جانب سے آر ایل این جی پر دیے گئے نئے صنعتی کنیکشن زیادہ موثر نہیں تھے۔

سینیٹرز نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت متعصبانہ پالیسیوں سے علاقائیت کو ہوا دے رہی ہے۔

اجلاس میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ آپ ایک تکنیکی ماہر کی آنکھوں سے چیزوں کو دیکھنا ہوگا نہ کہ لاہور کی نظروں سے اور یہی وجہ سے قومیت بڑھ رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر نثار محمد نے آرٹیکل 158 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ وفاقی حکومت ایک صوبے کو دوسروں کے اخراجات پر غیر قانونی مدد فراہم کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ جب قانون میں واضح ہے کہ صوبوں کی جانب سے پیدا کردہ قدرتی وسائل پر ان کا پہلا حق ہے تو پھر حکومت خیبرپختونخوا کی صنعتوں کو گیس کی فراہمی سے کیسے انکار کرسکتی ہے؟

اجلاس میں صنعتکاروں نے کمیٹی کو بتایا کہ آر ایل این جی کی لاگت قدرتی گیس کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے اور سوئی نادرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کا دعویٰ ہے کہ گیس دستیاب نہیں لہٰذا تمام نئے صنعتی کنیکشن آر ایل این جی پر ہوں گے۔

ایس این جی پی ایل کے منیجنگ ڈائریکٹر امجد لطیف کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا یومیہ تقریباً 40 کروڑ کیوبک فٹ ( ایم ایم سی ایف ڈی) پیدا کرتا ہے اور 330 ایم ایم سی ایف ڈی استعمال کرتا ہے جبکہ 35 ایم ایم سی ڈی مختلف وجوہات کے باعث ضائع ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ 35 ایم ایم سی ایف ڈی اسلام آباد کو فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں گیس کی کل طلب 150 ایم ایم سی ایف ڈی ہے اور تمام صوبے اس طلب کو اپنے حصے سے پورا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی ٹرمنل میں خرابی کے باعث ملک بھر میں گیس کی قلت

اجلاس میں جب سینیٹر باز محمد خان نے پنجاب کے حصے کے بارے میں پوچھا تو اعظم خان نے کہا کہ پنجاب میں گیس پیدا نہیں ہوتی آپ کیسے اس میں حصہ شامل کرسکتے ہیں۔

اجلاس میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زاہد شنواری نے کہا کہ ایس این جی پی ایل کی جانب سے تکنیکی طور پر زائد بلنگ کی جارہی ہے، انہوں نے صرف کاغذوں میں گیس کے پریشر میں اضافہ اور درجہ حرارت میں کمی دکھائی ہے جبکہ پشاور کو فراہم ہونے والی گیس کی قیمت میں 20 فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔


یہ خبر 02 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں