رام اللہ: فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کی حکمراں جماعت کی جانب سے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اپنے علاقے میں شامل کرنے اور اسے وسیع دینے کے حق میں ووٹ اور امریکا کی اس معاملے میں خاموشی پر شدید الفاظ میں مذمت کی۔

فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جماعت کی جانب سے ووٹنگ امریکی انتظامیہ کی مکمل حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔

اپنے ایک بیان میں محمود عباس کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے اسرائیل کی جانب سے نئی آباد کاری اور فلسطینی عوام کے خلاف تل ابیب کے قبضے جیسے جرائم پر بھی مذمت کرنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکمراں جماعت کا یہ ووٹ عالمی برادری کے لیے انتباہ ہے کہ اسرائیل، امریکا کی مکمل حمایت کے ساتھ خطے میں امن بحال کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا جبکہ اس کا اہم مقصد تاریخی فلسطین میں ایک فرقہ وارانہ نظام قائم کرنا ہے۔

مزیر پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

واضح رہے کہ اسرائیل کی حکمراں جماعت کی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے مغربی کنارے کے علاقوں کو وسیع کرنے اور وہاں آباد کاری کے لیے غیر محدود تعمیرات کے حوالے سے ایک قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی۔

تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جو اس کمیٹی کے رکن بھی ہیں، قرارداد پر ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے۔

خیال رہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے اس طرح کے اقدامات سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان متنازع دو ریاستی حل کی امیدیں ختم ہوجائیں گی کیونکہ اس اقدام کے بعد فلسطینیوں کے پاس کچھ ہی علاقہ باقی رہ جائے گا تاہم نیتین یاہو کی حکومت کے ممبران کی ایک بڑی تعداد یہی کہتی نظر آتی ہے کہ وہ کھلم کھلا علیحدہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ اب بھی فلسطینی عوام کے ساتھ دو ریاستی حل کے حامی ہیں تاہم انہوں نے مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاری پر بھی زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

خیال رہے کہ گزشتہ 50 سال سے زائد کے عرصے سے مغربی کنارہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحلافہ تسلیم کرنے اور سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے معاملے پر فلسطینی عوام میں شدید غم و غصہ ہے۔

احمد تمیمی پر اسرائیلی فوجیوں کو مارنے پر فردِ جرم عائد

دوسری جانب اسرائیل نے 16 سالہ فلسطینی لڑکی پر 2 اسرائیلی فوجیوں پر تشدد سمیت 12 مقدمات میں فردِ جرم عائد کردی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں یہ دیکھا جاسکتا تھا کہ ایک 16 سالہ فلسطینی لڑکی مغربی کنارے پر اسرائیلی فوجیوں کے خلاف باہمت طریقے سے کھڑی رہی اور اس نے 2 فوجیوں کا مقابلہ بھی کیا، جسے بعدِ ازاں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کیا کمزور مسلم حکمران ’یروشلم‘ کی حفاظت کرسکیں گے؟

فلسطینی عوام میں اسے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ اسرائیلی حکام نے لڑکی کے گھر والوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف مغربی کنارے پر لڑکی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

اسرائیل کی فوجی عدالت میں احمد تمیمی کی والدہ نریمان تمیمی اور ان کی کزن نور پر بھی الزامات عائد کیے گئے، جب کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ احمد کی والدہ نے فیس بک استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اسرائیلی فوجیوں پر حملے کرنے کے لیے اکسایا۔

احمد تمیمی اور ان کی والدہ نریمان تمیمی اس وقت اسرائیل کی حراست میں ہیں، جب کہ ان کے کیس کی سماعت 8 جنوری کو ہوگی۔


یہ خبر 2 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں