اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے نوٹس کیس میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگرلیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ادارے کو نئی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد پر ہونے والے دھرنے پر نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فیض آباد ھرنا سے متعلق حساس اداروں کے ترجمان سوالات کے جواب دینے میں ناکام رہے ہیں تاہم اٹارنی جنرل حساس اداروں سے بریفنگ لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔

یہ پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کاآپریشن معطل، 150 افراد گرفتار

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ ‘معلومات حساس نوعیت کی ہوں تو ان کیمرہ بتائی جاسکتی ہیں‘۔

عدالت میں اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ‘دھرنے کے باعث 139 ملین روپے کا نقصان ہوا، پنجاب میں 9، سندھ میں 3 لوگ اپنی زندگی سے محروم ہوئے ، اسلام آباد میں 194 پولیس اہلکار بھی دھرنا شرکاء کی جنونیت کا شکار ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا مرنے والے تمام مسلمان تھے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی مرنے والے تمام مسلمان تھے۔

عدالت عظمیٰ نے پیمرا کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘بھاری بھر کم رپورٹ جمع کروائی گئی لیکن کام کی کوئی چیز نہیں، رپورٹ میں اشتہاروں اور دیگر نوٹس لگادیے گئے ہیں اور اس میں طلب کی گئی چیزوں کا ذکر نہیں ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: شرکا کو 'آپریشن' کی آخری وارننگ جاری

عدالت نے پیمرا کو پوچھے گئے سوالات کا تفصیلی جواب جمع کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ دونوں وزارتیں نقصان کے تخمینہ کی رپورٹ پر متفق ہیں اور دھرنے کے دوران سکیورٹی ایجنسیوں کے کتنے افسران زخمی ہوئے اور ان کی نوعیت کیا تھی جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران کوئی اہلکار جاں بحق نہیں ہوا لیکن ایک اہلکار کی آنکھ ضائع ہوئی جس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ مسلمانوں کا مسلمانوں پر حملہ تھا’۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ پیمرا نے دھرنے کے معاملے پر کیا ایکشن لیا جس پر پیمرا کی خاتون نمائندہ نے بتایا کہ پیمرا میں اس وقت چیئرمین کی نشست خالی ہے۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ پیمراکو اس رپورٹ سے دستبردار ہونے دیں جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جواز قابلِ قبول نہیں کہ چئیرمین پیمرا کی عدم موجودگی میں پیمرا غیر فعال ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: وفاقی وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ‘یہ پیغام نہیں دینا چاہتے کہ ہم کسی کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، اگر یہی کرنا ہے تو قانون کو ختم کر دیں’۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں پیمرا کو کارروائی کا مکمل اختیار اور طریقہ کار دیا گیا جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں، امید ہے ریاست کو مفلوج کرنے کا یہ آخری واقعہ ہوگا۔

جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا ’سڑکوں پر فیصلے کریں سڑکوں پرقانون بنائیں، عراق جنگ پر لندن میں 10 لاکھ لوگوں نے پر امن دھرنا دیا تھا، ہماری اخلاقیات مغرب والے لے گئے ہیں۔‘

عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے سے سوال کیا کہ کیا دھرنے دینے والی مذہبی جماعتوں کے سربراہ کہیں نوکری کرتے ہیں؟ سربراہ کا ذریعہ معاش اور ایڈریس کیا ہے جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ عدالت نے حکم نامے میں جو تفصیلات مانگی وہ فراہم کر دی گئیں۔

سپریم کورٹ نے افتخار گیلانی کی دھرنا کیس میں فریق بننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں ایک کیس کی جاری سماعت کے دوران وکلا کے مقررہ وقت پر نہ پہنچنے ہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیا تھا۔

30 نومبر کو ہونے والی سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اسلام آباد دھرنے کے شرکاء کے خلاف آپریشن سے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ دھرنے میں شریک مظاہرین کو پولیس کا مقابلہ کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھیاں اور ماسکس کس نے فراہم کیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں