اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے حدیبیہ پیپرملز کیس کی دوبارہ تفتیش کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے تفصیلے فیصلے میں تشویش کا اظہار کیا کہ ‘ریفرنس کو بلا جواز طوالت دی گئی، حدیبیہ کیس اسی وقت مر گیا تھا جب نیب حکام اس معاملے کو کئی برسوں تک متعدد عدالتوں میں گھسیٹتے رہے’۔

مذکورہ فیصلے سے واضح ہو گیا کہ پاناما پیپرز کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کی مد میں کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔

یہ پڑھیں: حدیبیہ کیس میں کب کیا ہوا؟ مکمل جائزہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے پروسیکیوٹر سے کہا ‘پاناما کے فیصلے کو سمجھے بغیر طوطے کی طرح رٹنے کی ضرورت نہیں’۔

واضح رہے کہ ریفرنس میں نوازشریف اور شہباز شریف سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 2000ء میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر مبینہ منی لانڈرنگ کی تھی تاہم نیب ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی اور لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے 2011 میں ریفرنس مسترد کردیا تھا۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ جاری کر تے ہوئے کہا کہ ریفرنس کو غیر معینہ مدت تک زیرالتوا رکھ کر قانونی عمل کی نفی کی گی، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کیس کی از سر نو تفتیش کا فیصلہ کمزور بنیادیوں پر تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کو حدیبیہ ملز کیس کا ریکارڈ مل گیا

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جمعہ (05 جنوری) کو 36 صفحات پر مشتمل فیصلے میں تحریر کیا کہ اس کیس میں ہمیں افسوس ہے کہ ریفرنس میں ملزمان کو دباؤ میں لانے کے سوا کچھ نہ تھا جب کہ ملزمان کو دفاع کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے نیب کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘مقررہ وقت میں نیب نے غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا’۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 36 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں لکھا کہ ‘چیئرمین نیب نے 4 برسوں میں ریفرنس بحالی کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے اور تحقیقاتی ادارے کی جانب سے کیس کو غیر معینہ مدت تک التوا میں رکھا جو قانونی عملداری کی توہین ہے’۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکیس دیئے کہ ‘حدیبیہ کیس کی اصل موت تو احتساب عدالت میں ہی ہو گئی تھی، نیب نے 1 ہزار 2 سو 29 دن میں اس کیس کی بحالی کے لئے کوئی اپیل دائر نہیں کی اور نا ہی تعطل کیے جانے کے حق میں ٹھوس شواہد پیش کیے ’۔

مزید پڑھیں: دیبیہ ملز کیس: پی ٹی آئی کو نیب ریفرنس دائر کرنے کا مشورہ

نیب کے وکیل کہا کہنا تھا کہ کیس کی پیروی نواز شریف اور شہباز شریف کی وجہ سے غیر معمولی تعطل کا شکار ہوئی۔

جس کے جواب میں عدالت عظمیٰ نے وکیل کی بات کو حقائق کے منافی قرار دیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ‘حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کا مقصد صرف ملزمان کو دباؤ میں لانا تھا اور شریف خاندان کو اپنے بنیادی قانونی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

حدیبیہ کیس کیا ہے ؟

1990ء کی دہائی میں شریف خاندان پر بے نامی بینک اکاؤنٹس سے بھاری رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام لگا۔

خیال رہے کہ حدیبیہ پیپرز مل کے نام سے باضابطہ ریفرنس سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سال 2000ء میں دائر ہوا۔

گرفتار اسحٰق ڈار ریفرنس میں پہلے ملزم اور بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔

وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد نواز شریف کے سمدھی اور موجودہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے سال 2000ء میں دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے 45 صفحات پر مشتمل ایک اعترافی بیان دیا جس میں اُنہوں نے بہت بڑے پیمانے پر شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا۔

اِس 45 صفحے کے اعترافی بیان میں ساری منی لانڈرنگ کی تفصیل ہے جو اسحٰق ڈار نے شریف خاندان کے لیے کی تھی۔

اسحٰق ڈار کے مطابق دفعہ 164 کا یہ بیان اُن سے زبردستی لیا گیا تھا، لیکن قانون دانوں کا کہنا ہے کہ 164 کے بیان سے قانونی انحراف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

مجموعہِ ضابطہ فوجداری میں اعترافِ جرم ریکارڈ کرنے کا ایک مخصوص طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ کسی اور طریقے سے حاصل کیا گیا اعترافی بیان عدالت میں قابلِ قبول نہیں ہوتا۔

تبصرے (0) بند ہیں