اسلام آباد: تجزیہ کار لیاقت شاہ وانی کا کہنا ہے کہ نواب ثنااللہ زہری نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی قربانی دے کر بلوچستان اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچا لیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے لیاقت شاہ وانی نے کہا کہ ’نواز شریف نے سردار اختر مینگل کی حکومت گرا کر صوبائی حکومت گرانے کا رواج رکھا تھا جس کا خمیازہ ان کی جماعت کو بھگتنا پڑا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کو اس بات کا خدشہ تھا کہ جو فارورڈ بلاک بلوچستان میں بنا ہے یہ دوسرے صوبوں میں بھی بن سکتا ہے اور اگر بلوچستان اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو باقی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو سکتی ہیں، جس کی وجہ سے سینیٹ کے الیکشن کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں اور آئندہ انتخابات بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری مستعفی

لیاقت شاہ درانی کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان اسمبلی میں دو تاریخ کو عدم اعتماد کی تاریخ چلی تھی لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پیر کو بلوچستان آئے، نواز شریف نے نہ بلوچستان کا دورہ کیا نہ ان کو دلچسپی ہے اور انہیں اس کا خوف بلکل بھی نہ ہوتا اگر انہیں لگتا کہ یہ وائرس دوسرے صوبوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔‘

نواب ثنا اللہ زہری کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالواسع کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کے نام پر ابھی مشاورت شروع نہیں ہوئی، شاید ایک یا دو دن میں اس پر بات چیت ہو جس کے بعد خوش اسلوبی سے نئے وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق کر لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنا استعفیٰ صوبائی گورنر محمد خان اچکزئی کو پیش کیا تھا جسے انہوں نے قبول کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کو 'اب' گرا کر کیا حاصل کرنے کی کوشش ہے؟

میڈیا کو جاری کردہ پریس ریلیز میں نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھیوں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت اور وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی کوئٹہ تشریف لائے تاہم اس معاملے میں مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

ثنااللہ زہری کے خلاف گزشتہ دنوں تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی سیکریٹریٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رکنِ اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبد القدوس بزنجو نے جمع کرائی تھی۔

مزید پڑھیں: 'بلوچستان کے سیاسی بحران کا اثر سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوگا'

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے عبد القدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو نظر انداز کیا گیا، جبکہ تحریک کے حق میں دستخط کرنے والے تمام 14 اراکین کو ترقیاتی منصوبوں میں بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔

صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئی تحریک کے حق میں میر خالد لانگو، میر کریم موشیروانی، رقیہ ہاشمی، طارق مگسی، امان اللہ نوتزئی، زمرک اچکزئی سمیت دیگر 14 ارکان اسمبلی کے دستخط موجود تھے جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین سے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں