اسلام آباد: بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے حوالے سے سیاستدانوں، وکلا اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاوہ تینوں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی اپنی جگہ قائم رہی تو سینیٹ کے انتخابات پر اس کے منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے 11 سینیٹرز کی عدم موجودگی سے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے نتائج پر فرق پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف ارکان اسمبلی کی تحریک عدم اعتماد

ماہرینِ سیاست کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سندھ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبر پختونخوا (کے پی) میں اسمبلی تحلیل کرتی ہے تو پھر حقیقی سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نیر حسین بخاری نے کہا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور اسلام آباد سمیت دیگر تینوں اسمبلیوں کی موجودگی اور بلوچستان اسمبلی کی عدم موجودگی سے حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری نیر حسین بخاری نے کہا کہ بلوچستان سے 23 میں سے 12 سینیٹ ممبر مارچ تک موجود ہوں گے اور ایسے میں سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب جائز ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ:رکن اسمبلی کی گاڑی نے سارجنٹ کو کچل دیا

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) کے مدثر رضوی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا مسئلہ پیچیدہ ہوگیا ہے تاہم وہ نہیں سجھتے کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں بلوچستان میں کوئی سیاسی بحران سر اٹھائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی بحران کی کیفیت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب بلوچستان اسمبلی کے متعدد ممبران استفعیٰ دے دیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان نے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کو عہدے سے ہٹا دیا

انھوں نے کہا کہ اگر ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو ارکین صوبائی اسمبلی سے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے کہا جائے گا اور اگر نئے وزیراعلیٰ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوشش کریں گے تو انھیں اپوزیشن لیڈر سے مل کر عارضی حکومت تشکیل دینی ہوگی۔

واضح رہے کہ سینیٹ 104 ممبران پر مشتمل ہوتی ہے جہاں چاروں صوبوں سے 23، فاٹا سے 8 اور اسلام آباد سے 4 ممبران شامل ہوتےہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں