پشاور: افغانستان میں امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور انہیں سیاسی دھارے میں شامل کرنے سے متعلق مذاکرات کئی عرصے سے تعطل کا شکار ہیں تاہم گزشتہ ہفتے انٹرا افغان امن مذاکرات کے حوالے سے افغان طالبان پر مشتمل اعلیٰ سطح کے وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا تاہم یہ دورہ کسی منطقی انجام تک پہنچے بغیر ہی ختم ہو گیا۔

قطر میں قائم طالبان کے دفتر سے آنے والے وفد میں طالبان کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ شباب الدین دلاور اور مولوی رسول بھی شامل تھے۔

یہ پڑھیں:افغان حکام کی استنبول میں طالبان سے ملاقات

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ‘مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر بھی طالبان کا وہی موقف رہا جو ماضی میں تھا اس لیے اجلاس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا’۔

انہوں نے بتایا ‘افغان طالبان نے قطر آفس میں امریکا کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن افغان حکومت سے مذاکرات کی حمایت نہیں کی’۔

ادھر ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے طالبان کو افغانستان حکومت سے مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی کیوں کہ پاک-امریکا تعلقات میں موجودہ کشدیدگی کے پیش نظر وہ طالبان سے کسی محاذ پر الجھنا نہیں چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان اہم: امریکا

واضح رہے کہ افغان طالبان کا ایک وفد ترکی میں حزب اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد گزشتہ ہفتے اسلام آبا د پہنچا تھا۔

دوسری جانب افغان طالبان نے ترکی میں وفد کی ملاقات سے متعلق خبروں کی تردید کرتے ہوئے خبروں کو انٹیلی جنس کا پروپیگینڈا قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کرنا افغانستان میں پرامن مذاکرات کے عمل کو متاثر کرسکتا ہے۔

حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان محمد نادر افغان نے اپنی تنظیم کی جانب سے اجلاس میں شرکت کی خبروں کی تصدیق کی تھی جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی تنظیم کی استنبول اجلاس میں شرکت کی خبروں کی تردید کی تھی۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر طالبان سے مذاکرات کریں، عمران خان

اسی ضمن میں خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر سخت دباؤ ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف موثر کارروائی کرے ورنہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لے کر آئے۔


یہ خبر 18 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں