دو ریاستوں میں بٹے کوریا کا ایک جھنڈے تلے اولمپکس کھیلوں میں حصہ لینے پر اتفاق دنیا کے لیے بڑی اور خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنے والی بریکنگ نیوز ہے۔ مگر اِس خوشگوار خبر کے باوجود کوریا میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں جس کا واضح اشارہ 23 جنوری سے ورلڈ اکنامک فورم کے آغاز سے پہلے فورم کی جاری کردہ رپورٹ میں دیا گیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ دنیا ایک ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ ان (Kim Jong-un) کے درمیان لفظی گولہ باری سے صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ شمالی کوریا کے معاملے پر صورت حال عشروں تک اِس قدر سنگین نہیں تھی جتنی ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے محض ایک سال کے مختصر وقت میں ہوگئی ہے۔

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے حالیہ تنازع اور جنگ کے امکانات کو سمجھنے کے لیے اِس کا تاریخی پسِ منظر جاننا ضروری ہے۔ 1910ء تک کوریا ایک ہی ملک تھا جس پر 5 صدیوں سے ایک ہی خاندان حکمران چلا آ رہا تھا۔ پھر 1910ء میں جاپان نے کوریا پر قبضہ کیا اور 35 سال تک کوریا جاپان کا حصہ رہا۔

کم جونگ ان—فائل فوٹو/ اے ایف پی
کم جونگ ان—فائل فوٹو/ اے ایف پی

1945ء میں جب دوسری جنگِ عظیم اپنے انجام کے قریب تھی تو اتحادی افواج نے جاپان کے زیرِ قبضہ علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کا فیصلہ کیا، اور اُن علاقوں میں کوریا بھی شامل تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ جب تک جاپان کے مفتوحہ اور زیرِ قبضہ علاقوں میں نئے انتخابات کروا کر حکومتیں نہیں بنا دی جاتیں، اُن کا کنٹرول اتحادی ہی سنبھالیں گے۔ امریکا نے فلپائن اور جاپان پر تو کنٹرول سنبھالا لیکن کوریا امریکا کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔

پڑھیے: جنگ چھڑی تو شمالی کوریا کو نیست و نابود کردیں گے

دوسری طرف سوویت یونین کوریا میں دلچسپی رکھتا تھا۔ 6 اگست 1945ء کو امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا اور دو دن بعد سوویت یونین نے جاپان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور جاپان کے اندر گھسنے کے ساتھ شمالی کوریا کے ساحل پر بھی 3 پوائنٹس پر قبضہ کرلیا۔ 15 اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد جاپان کے بادشاہ نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا اور دوسری جنگِ عظیم کا خاتمہ ہوگیا۔

جاپان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے سے صرف 5 دن پہلے امریکی محکمہءِ خارجہ کے دو جونیئر افسروں نے کوریا کے عوام کی مرضی کے بغیر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور امریکا کو ملنے والے جنوبی حصے میں دارالحکومت سیئول کو بھی رکھا گیا۔ یہ تقسیم جاپان کے انتظام کے لیے جاری ہونے والے حکم نامے میں بھی درج کرلی گئی۔

جاپانی افواج نے شمالی کوریا میں موجود سوویت یونین اور جنوبی کوریا میں موجود امریکا کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ جنوبی کوریا میں جلد ہی سیاسی جماعتیں وجود میں آگئیں اور انہوں نے حکومت سازی کے لیے نمائندے بھی نامزد کردیے لیکن امریکا کو کئی اُمیدواروں کے حوالے سے خدشہ تھا کہ کہیں وہ بائیں بازو کی جانب نہ جھک جائیں۔ امریکا اور سوویت یونین کی ٹرسٹ انتظامیہ کو کوریا کے اتحاد کے لیے ملک گیر الیکشن کروانا تھے لیکن دونوں نے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کیا۔ امریکا پورے کوریا کو سرمایہ دارانہ اور جمہوری نظام کے تحت چلانا چاہتا تھا جبکہ سوویت یونین کوریا میں کمیونسٹ نظام کا خواہاں تھا۔

جنوبی کوریا نے مئی 1948ء میں آزاد مملکت ہونے کا اعلان کیا اور اس کے پہلے رہنما سینگمین ری بنے، جنہیں امریکا نامزد کیا تھا۔
جنوبی کوریا نے مئی 1948ء میں آزاد مملکت ہونے کا اعلان کیا اور اس کے پہلے رہنما سینگمین ری بنے، جنہیں امریکا نامزد کیا تھا۔

بالآخر امریکا نے سینگمین ری (Syngman Rhee) کو جنوبی کوریا پر حکمرانی کے لیے نامزد کردیا اور جنوبی کوریا نے مئی 1948ء میں آزاد مملکت ہونے کا اعلان کردیا جس کے بعد سینگمین ری کو اگست میں باضابطہ طور پر جنوبی کوریا کا صدر بنا دیا گیا۔ دوسری طرف سوویت یونین نے کم ال سنگ (Kim Il-sung) کو شمالی کوریا کا صدر نامزد کیا، یہاں یہ بات واضح رہے کہ کم ال سنگ سوویت ریڈ آرمی میں خدمات انجام دے چکے تھے۔

9 ستمبر 1948ء کو کم ال سنگ شمالی کوریا کے سربراہ بنے۔ اقتدار سنبھالتے ہی کم ال سنگ نے سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کو کچلنا شروع کردیا اور اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے لگے۔ 1949ء میں شمالی کوریا میں ہر طرف کم ال سنگ کے مجسمے لگنا شروع ہوگئے اور کم ال سنگ کو گریٹ لیڈر قرار دیا جانے لگا۔

تصاویر دیکھیے: ’ایٹمی ریاست‘ بننے پر شمالی کوریا میں جشن

1950ء میں کم ال سنگ نے کوریا کو مُتحد کرنے کا فیصلہ کیا اور جنوبی کوریا پر فوج کشی کردی۔ یہ جنگ 3 سال جاری رہی اور اِس بے نتیجہ جنگ کی وجہ سے کوریا میں اندازاً 30 لاکھ افراد مارے گئے۔ 1950ء کی جنگ میں چین اور سوویت یونین نے شمالی کوریا اور امریکا نے جنوبی کوریا کا ساتھ دیا۔

1948ء میں کم ال سنگ شمالی کوریا کے سربراہ بنے۔
1948ء میں کم ال سنگ شمالی کوریا کے سربراہ بنے۔

اِس جنگ کا اختتام ایک جنگ بندی معاہدے کے تحت ہوا جس میں غیر فوجی علاقے یا امن زون قائم کیے گئے۔ یہ زون دونوں ملکوں کے درمیان مستقل حدبندی بن گئے۔

جنگ بندی معاہدے کے باوجود چھوٹی چھوٹی جھڑپیں اُن زونز پر معمول بن گئیں اور اکتور 1968ء میں شمالی کوریا کے کمانڈوز جنوبی کورین صدر کے قتل کی کوشش میں پکڑے گئے اور اُنہیں صدر پارک چنگ ہی کی رہائش گاہ سے چند سو گز دوری پر گرفتار کرلیا گیا۔

اگست 1974ء میں شمالی کوریا کے کمانڈوز نے صدر پارک چنگ ہی (Park Chung-hee) کو سیئول میں قتل کرنے کی ایک اور کوشش کی، اور اِس بار صدر کی اہلیہ ہلاک ہوگئیں۔

اپریل 1996ء میں شمالی کوریا نے اپنے ہزاروں فوجی ’غیر فوجی علاقے‘ میں داخل کردیے اور اعلان کیا کہ وہ 1953ء کے معاہدے کو تسلیم نہیں کرتا۔

جون 1999ء میں شمالی کوریا کی بحریہ کے دستے متنازع بحری حدود میں داخل ہوئے اور دونوں ملکوں کی بحریہ میں بڑی جھڑپ شروع ہوگئی۔ اُس جھڑپ میں جنوبی کوریا کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے۔

1950 کی کوریا جنگ کے متاثرین۔
1950 کی کوریا جنگ کے متاثرین۔

جون 2002ء میں جنوبی کوریا کے بحری دستے متنازع سمندری حدود میں گھسے اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپ میں شمالی کوریا کے 30 فوجی مارے گئے جبکہ جنوبی کوریا کے بھی 4 فوجی ہلاک ہوئے۔ اکتوبر 2007ء میں جنوبی کوریا کے نویں صدر رو مو ہیون (Roh Moo-hyun) مذاکرات کے لیے غیر فوجی علاقے میں پہنچے اور 1953ء کے جنگ معاہدے پر بات ہوئی۔

مارچ 2010ء میں جنوبی کوریا کا ایک بحری جہاز غرق آب ہوا اور 46 افراد مارے گئے، جنوبی کوریا نے الزام لگایا کہ جہاز شمالی کوریا کے تارپیڈو سے تباہ ہوا۔ نومبر 2010ء میں شمالی کوریا نے متنازع بحری حدود میں ایک جزیرے پر گولہ باری کی جس سے جنوبی کوریا کے دو فوجی اور دو شہری ہلاک ہوگئے، جنوبی کوریا نے بمبار طیاروں کے ذریعے جوابی کارروائی کی۔

پڑھیے: نیٹو سربراہ نے شمالی کوریا کو ’عالمی خطرہ‘ قرار دے دیا

مارچ 2014ء میں شمالی کوریا کے دو ڈرون جنوبی کوریا کی سرکاری عمارتوں کی تصویریں لیتے پائے گئے۔ اکتوبر 2014ء میں ایک بار پھر سمندری حدود میں جھڑپ ہوئی۔

اگست 2015ء میں دونوں ملکوں نے سرحدی غیر فوجی علاقے میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر پروپیگنڈا کیا جس پر ایک بار پھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ چند دن بعد مذاکرات میں پروپیگنڈا بند کرنے پر اتفاق ہوا۔

اِس تاریخی پسِ منظر سے واضح ہے کہ جنگِ عظیم دوم کے آخری دنوں میں امریکی محکمہءِ خارجہ کے دو جونیئر افسران کی حماقت نے کوریا کو مسلسل جنگ کا میدان اور امریکا کے لیے مستقل درد سر بنادیا۔ شمالی کوریا نے آزادی کے فوری بعد سے ہی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول پر توجہ دینا شروع کردی تھی اور شمالی کوریا ہی پہلا ملک تھا جس نے این پی ٹی سے نکلنے کا اعلان کیا تھا اور تب سے امریکا نے اُسے تنہا کرنے کا آغاز کردیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شمالی کوریا کے بارے میں سخت رویہ اپنایا اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان پر ذاتی حملے بھی کیے۔ اپنی صدارت کے آغاز پر ہی 3 جنوری 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے شمالی کوریا کے بین البراعظمی جوہری میزائل بنانے کے دعوے کو مسترد کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کی جوہری میزائل بنانے کی صلاحیت پر شک کا اظہار کر رہے تھے یا وہ اُس کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھانے کا دعویٰ۔

امریکی صدر نے ایک اور ٹوئٹ کے ذریعے شمالی کوریا کے اتحادی چین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ شمالی کوریا کو لگام دینے میں ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ نے ٹوئٹ کی کہ چین امریکا سے یک طرفہ تجارت کرکے پیسے کما رہا ہے لیکن شمالی کوریا کے معاملے میں کوئی مدد نہیں کر رہا۔ بہت خوب!

مئی 2017ء میں ٹرمپ نے شمالی کوریا کے صدر کی ذہنی صحت پر سوال اُٹھایا۔ اگست 2017ء میں ٹرمپ نے شمالی کوریا کو ایک اور دھمکی آمیز پیغام میں کہا ہے کہ امریکی فوج شمالی کوریا سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ عسکری حل اب بالکل موجود ہے، 'لاکڈ اینڈ لوڈڈ'، کیا شمالی کوریا دانشمندی کا مظاہرہ کرے گا۔ اُمید ہے کم جونگ ان کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔

ستمبر 2017ء میں نیویارک میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر شمالی کوریا نے اُسے (امریکا) یا اُس کے اتحادیوں کو اپنے دفاع پر مجبور کیا تو امریکا اُسے تباہ کردے گا۔ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا کہ راکٹ مین خود کش مشن پر ہے۔

وڈیو بشکریہ بی بی سی

امریکی صدر کے اِس بیان کے بعد شمالی کوریا کے وزیرِ خارجہ ری یونگ ہو (Ri Yong-ho) نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہاوت ہے نا کہ کتے بھونکتے رہتے ہیں مگر قافلے چلتے رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکی صدر کا خیال ہے کہ وہ ہمیں بھونکتے ہوئے کتے کی آواز سے پریشان کرسکتے ہیں تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔

شمالی کوریا کے صدر نے ٹرمپ کے خطاب پر ردِعمل میں کہا کہ صدر ٹرمپ کو اقوام متحدہ میں اپنے حالیہ خطاب پر 'بھاری قیمت' چکانی پڑے گی۔ کم جونگ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیان کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں نے خوفزدہ یا رکنے کی بجائے، جو راستہ منتخب کیا وہ درست ہے اور اِسی پر چلنا ہے۔ نومبر 2017ء کو ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دہشتگردی کا معاون ملک قرار دیتے ہوئے مزید پابندیوں کا اعلان کیا۔

امریکی صدر اور شمالی کوریا کے رہنما کے درمیان اِن ذاتی حملوں اور شدید تناؤ کی وجہ سے کوریا پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے حال ہی میں شمالی کوریا کے خلاف جنگی آپشنز پر بھی غور کیا ہے جن میں شمالی کوریا پر اُس کی کسی بھی کارروائی سے پہلے حملہ یا اُس کی ایٹمی تنصیبات اور میزائل سائٹس پر حملہ شامل ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے 17 جنوری کو کینیڈا میں ایک پریس بریفنگ میں فوجی آپشن سے متعلق سوال پر کہا کہ وہ ایسے کسی ایشو پر بات نہیں کریں گے جس کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا امریکی صدر نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ امریکی وزیرِ خارجہ کے اِس جواب سے ایک بات واضح ہوگئی کہ فوجی آپشن میز پر موجود ہے۔

اِس سے پہلے چین کا میڈیا بھی شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکی فوجی تیاریوں کی رپورٹس شایع کرچکا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع جیمز میٹس بھی کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے تنازع کا حل سفارتی ہوگا تاہم اُس کے ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیکن پینٹاگون ہر قسم کے ہنگامی حالات کے لیے بھی تیار رہتا ہے۔

شمالی کوریا کا تنازع امریکا کے لیے صرف اُس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے دردِ سر نہیں بلکہ چین کا بڑھتا ہوا علاقائی اثر و رسوخ بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ سی آئی اے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائل پروگرام ہی صرف امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بلکہ چین کا اُبھرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

امریکا اور چین دونوں ہی شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے مخالف ہیں لیکن دونوں کے مفادات بھی الگ الگ ہیں۔ چین کے لیے شمالی کوریا، امریکا کے زیرِ اثر جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان بفر زون ہے۔ سی آئی اے ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر مائیکل کولنز کا کہنا ہے کہ چین امریکا کو شمالی کوریا کے معاملے پر جھنجھلاہٹ کا شکار کرکے کوریا کو مستقل بنیادوں پر تقسیم رکھنا چاہتا ہے۔ چین مستقبل میں شمالی کوریا کے ڈوبنے کو جنوبی کوریا اور جاپان کا اُبھرنا اور امریکا کا مزید مضبوط ہونا تصور کرتا ہے۔

امریکی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان شمالی کوریا کے معاملے پر اختلاف کا یہ مطلب ہرگر نہیں کہ چین شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر تحفظات نہیں رکھتا، بلکہ ایٹمی شمالی کوریا سے نمٹنے کے لیے چین کی اپنی اسٹرٹیجک ٹائم لائن ہے۔ چین شمالی کوریا سے اُس وقت نمٹنے کی کوشش کرے گا جب وہ فوجی اور اقتصادی طاقت کے اعتبار سے امریکا پر برتری حاصل کرلے گا۔ شمالی کوریا اگر ایٹمی طاقت بننے کے باوجود ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو چین کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، چین کے لیے اصل مسئلہ امریکا کے زیرِ اثر متحدہ کوریا ہوسکتا ہے یا پھر کوریا میں ہونے والی جنگ۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amir Jan 20, 2018 08:50am
The USA is the main problem for the whole world.