کراچی: ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاک کیے گئے نقیب اللہ محسود کے معاملے پر تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے کہا ہے کہ پولیس پارٹی اور راؤ انوار کے بیانات ریکارڈ کرلیے ہیں اور آج شام تک اہم پیش رفت کی امید ہے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدعی، جبران ناصر اور ہاشم خان کی جانب سے بیان ریکارڈ کرایا گیا ہے جبکہ نقیب اللہ کے اہل خانہ کی شہر میں غیر موجودگی کے باعث واپسی پر ان کا بیان لیا جائے گا۔

ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ تحقیقات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا اور دوسرے مرحلے میں سینٹرل جیل میں ایک قیدی کا بیان لیا جائے گا جبکہ تیسرے مرحلے میں ڈی آئی جی شرقی کے دفتر میں اجلاس ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے اور تین روز میں ابتدائی رپورٹ پیش کردیں گے۔

خیال رہے کہ نقیب محسود کی ہلاکت کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کا سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کو بنایا گیا تھا جبکہ ڈی آئی جی جنوبی اور ڈی آئی جی شرقی بھی ٹیم کے ارکان میں شامل ہیں۔

آئی جی سی ٹی ڈی کے مذکورہ بیان سے قبل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نقیب اللہ محسود کے مبینہ طور پر پولیس مقابلے میں ہلاکت کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

کمیٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ پولیس میں اچھے کام کرنے والے افسران کو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی اور کچھ دہشتگردوں کے آلہ کار سوشل میڈیا پر بے بنیاد مہم چلا رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نقیب اللہ محسود دہشت گرد تھا اور میں اپنی بات پر قائم ہوں جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف مقدمات قائم کیے تھے اس پر وہ سیاسی جماعت میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ’پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل‘، بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لے لیا

ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ ہلاک نقیب اللہ سچل پولیس کو مطلوب تھا جبکہ سچل تھانے میں اس کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ 281/2014 درج ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقیب اللہ کا رینجرز کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزم عابد مچھڑ سمیت دیگر دہشت گردوں کے ہمراہ پولیس سے مقابلہ ہوچکا ہے۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ سچل تھانے میں 2014 کی رجسٹرڈ ایف آئی آر میں عابد مچھڑ، سیف الدین، ارشاد مسعود، مولوی یار محمد، نقیب اللہ مسعود اور دیگر 4 نامعلوم ملزمان نامزد تھے۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے میں چار دہشتگرد ہلاک ہوگئے تھے اور یہ واقعہ سچل کے علاقے اصغر بنگلور میں ہوا تھا۔

ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ جیل میں قید نقیب اللہ کے ساتھی قاری احسان نے دیگر ملزمان کے نام بھی پولیس کو بتائے تھے۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ نقیب محسود کے خلاف پولیس مقابلہ، دھماکا خیز مواد اور دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس حوالے سے تمام تفصیلات کمیٹی کو فراہم کردی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ محسود اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث تھا، اس کیس میں گواہ بھی ہیں جو شناخت کریں گے۔

تحقیقات پر دباؤ برداشت نہیں کریں گے، ڈی آئی جی شرقی

اس سے قبل ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ نے کہا تھا کہ نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے پر کی جانے والی تحقیقات پر کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا اور واقعے کی صاف شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: راؤ انوار پر حملہ، جوابی فائرنگ میں 2 دہشت گرد ہلاک

ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی 3 روز میں مکمل تحقیقات کے بعد رپورٹ آئی جی سندھ کو پیش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک کوئی رائے نہیں دے سکتے تاہم یہ کھلی تحقیقات ہے اگر کوئی عینی شاہد بیان ریکارڈ کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے۔

راؤ انوار کو پھانسی دینے کا مطالبہ

ادھر نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے پر قومی اسمبلی میں بھی بات کی گئی۔

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جمالدین نے کہا کہ ایس ایس پی راؤ انوار نقیب محسود کا قاتل ہے لہٰذا اسے پھانسی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا یہ دعویٰ کے نقیب اللہ غیر شادی شدہ تھا بے بنیاد ہے کیونکہ نقیب کے دو بچے ہیں اور وہ بالکل بے گناہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نقیب میرے گاؤں کا تھا اور وہ کراچی میں کاروبار کررہا تھا جبکہ اسے ماورائے عدالت قتل کیا گیا، جس کی عدالتی تحقیقات کی جانی چاہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک اور رکن اسمبلی شاہ گل آفریدی نے بھی اس معاملے پر کہا نقیب اللہ محسود کے پاس وطن کارڈ تھا، جو فوج کی کلیرئنس کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلیوں کے ساتھ کراچی میں ہونے والے واقعات کی تفصیل دی جائے۔

راؤ انوار بہادر افسر ہیں، ناصر حسین شاہ

اس واقعے کے حوالے سے وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ شاہ لطیف پولیس مقابلے کی انکوائری جاری ہے اور اس واقعے میں مجرم ثابت ہونے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ثناء اللہ عباسی کی اچھی کارکردگی ہے اور وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی کو ناحق خون کرنے کی اجازت نہیں، چاہے وہ راؤ انوار ہو یا کوئی اور اگر وہ اس میں ملوث پائے گئے تو کارروائی ہوگی، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ایک بہادر افسر ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ان پر خود کش حملہ بھی ہوا تھا۔

نقیب اللہ کا قتل

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف تحقیقات کا حکم

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

دریں اثناء مقتول نقیب اللہ محسود کی نمازہ جنازہ ادا کردی گئی جبکہ انہیں ان کے آبائلی علاقے میں سپردخاک کیا گیا۔

اس موقع پر قبائلی عمائدین نے پولیس کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کے خلاف 3 روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔

قتل پر ردعمل اور نوٹس

نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے نوٹس لیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔

اس کے علاوہ نقیب کی ہلاکت کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے فیس بک پر اپنی وال پر تعزیتی پیغام پوسٹ کیے اور نقیب اللہ کی تصاویر کو بھی شیئر کیا۔

عوام کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پولیس کے جعلی مقابلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پولیس میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں