سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹے کی مہلت دے دی۔

خیال رہے کہ تحقیقاتی اداروں کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے کے لیے عدالت سے مہلت مانگی گئی تھی، جس پر عدالت کے فل بینچ نے بند کمرے کی کارروائی کے بعد تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اداروں کو مہلت دینے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی، جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران زینب کے چچا اور ریپ کے بعد قتل کیے گئے دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم نے عدالت بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا، جب زینب شام 7 بجے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے نکلی تھی۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کیس: پولیس کا ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

انہوں نے بتایا کہ زینب اپنی خالہ کے گھر قرآن پڑھنے جاتی تھی، جو 300 میٹر کی دوری پر ہے، کمیٹی نے بتایا کہ زینب کا بھائی عثمان اسکے ساتھ جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا۔

تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ جب زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو اسکے گھر والوں نے تلاش شروع کردی اور 9 بج کر 30 منٹ پر پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جون 2015 سے اب تک 8 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے، پولیس کیا کر رہی تھی؟ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔

سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ہم نے 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے، جس میں سے 8 ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہوئے ہیں۔

جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل از خود نوٹس: سپریم کورٹ میں تمام تحقیقاتی ٹیمیں طلب

سماعت کے دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جاسکتا ہے۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کی جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب کے لواحقین سے استفسار کیا کہ آپ کو اگر کسی قسم کی شکایات ہیں تو بتائیں؟

جس پر لواحقین نے عدالت میں بیان دیا کہ جے آئی ٹی تسلی بخش کام کررہی ہے، ہم دعا گو ہیں کہ یہ جلد کامیاب ہوجائیں۔

بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت کے لیے جی آئی ٹی اور دیگر فریقین کو چیمبر میں طلب کرلیا تھا اور بند کمرے کی کارروائی ہوئی تھی۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے زینب قتل کیس کی سماعت کو روکنے کی ہدایت کی تھی اور تمام تحقیقاتی ٹیموں کو سپریم کورٹ طلب کرلیا تھیں۔

خیال رہے کہ قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل پر پہلے لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا، تاہم اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ پر نوٹس لیا اور 15 جنوری کو کیس کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

قصور میں 6 سالہ بچی زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: 'زینب کے قتل کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے'

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی سے زیادتی کی تصدیق ہوئی تھی۔

حمزہ شہباز کے گھر کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چھٹی کے روز زینب قتل از خود نوٹس کیس کے علاوہ سیکیورٹی بیئریر لگا کر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے خلاف از خود نوٹس اور پرائیویٹ لاء کالجز کے معیار تعلیم سے متعلق بھی سماعت ہوئی۔

رکاوٹیں کھڑی کرنے کے خلاف ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف کے گھر کے باہر رکاوٹیں فوری ہٹانے کا حکم دیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے پر چیف سیکریٹری پنجاب کی سخت سرزنش کی۔

چیف سیکریٹری پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ راستہ بند کرنیوالا گیٹ ہٹا دیا گیا ہے، اب صرف بیئریرز لگائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ نے بیئریر کیوں نہیں ہٹائے۔

جس پر چیف سیکریٹری نے کہا کہ حمزہ شہباز کی جان کو خطرہ ہے، اس لیے زگ زیگ سیکیورٹی بیرئرز لگائے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون ہے حمزہ شہباز، میں کسی حمزہ شہباز کو نہیں جانتا، اگر انکی جان کو خطرہ ہے تو اپنی رہائش گاہ تبدیل کرلیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ لوگ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے جہاں ان کی جانوں کو خطرے نہ ہو میں چیف جسٹس ہوں، میری رہائش گاہ کے باہر تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز مسلم لیگ (ن) کی نئی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل

انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کے گهر کے باہر رکاوٹیں ختم کریں، پرائیویٹ کار میں خود دورہ کر کے چیک کروں گا۔

اس موقع پر چیف سیکرٹری پنجاب کی حمزہ شہباز کے گهر کے باہر سے فوری رکاوٹیں ہٹانے کی یقین دہانی کرادی۔

لاء کالجز اور تعلیمی اصلاحات کے لیے رپورٹ حتمی کرنے کا حکم

سپریم کورٹ میں پرائیویٹ لاء کالجز کے معیار تعلیم سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جائزے کے لیے کمیٹی قائم کر دی جسے 6 ہفتوں میں رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کمیشن کو چند ہفتوں میں لاء کالجز اور قانون کی تعلیم میں ریفامز کے لیے رپورٹ حتمی کرنا کا بھی حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ صوبائی سطح پر بنائے گئے کمیشن تعلیمی اصلاحات پر رپورٹ 5 ہفتوں میں مرکزی کمیشن کو فراہم کرے جبکہ مرکزی کمیشن یہ رپورٹ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو فراہم کرے۔

عدالت نے حکم دیا کہ تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز لاء کالجز کمیشن کی معاونت کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کا معیار تعلیم بہتر کرنا چاہتے ہیں، رات ایک تصویر دیکھی کہ ایک رات میں بی اے پاس کریں، تعلیمی نظام ایسے نہیں چلے گا، بعد ازاں انہوں نے اس کیس کی سماعت مزید 7 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں