اوڈیشن کے دوران شرٹ اتارنے کو کہا گیا: ایشلے جڈ

24 جنوری 2018
میں نے شرٹ اتارنے سے انکار کیا، اداکارہ—فوٹو: جسٹ جیرڈ
میں نے شرٹ اتارنے سے انکار کیا، اداکارہ—فوٹو: جسٹ جیرڈ

ہولی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے متعلق جن ابتدائی 32 خواتین نے آواز اٹھائی تھی ان میں اداکارہ ایشلے جڈ بھی شامل تھیں۔

اب انہوں نے انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور صنفی تفریق سے پردہ اٹھاتے ہوئے ایک حیران کن انکشاف کیا ہے۔

اداکارہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اپنے پہلے اوڈیشن کے دوران اپنی شرٹ اتارنے کو کہا گیا۔

انہوں نے اس بات کا انکشاف امریکا میں ہونے والے سنڈانس فلم فیسٹیول کے دوران ایک سیشن کے دوران کیا۔

یہ سیشن فلمی شوٹنگ کے پس پردہ مناظر اور حقائق سے متعلق تھا، جس میں اداکارہ ایشلے جڈ نے اپنے تجربات کا کھل کر اظہار کیا۔

امریکی شوبز میگزین ’پیپلز‘ کے مطابق ایشلے جڈ نے کہا کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ انہیں اپنے پہلے اوڈیشن کے دوران اپنی شرٹ اتارنے کو کہا گیا۔

اداکارہ کے مطابق انہیں یہ بات ایک خاتون نے کہی اور ان کا ٹیسٹ بھی وہی لے رہیں تھیں۔

اداکارہ کے مطابق انہوں نے اس خاتون کو کہا کہ اس کا تعلق ہماری ایکٹنگ سے نہیں ہے، یہ ہمارے جسمانی خدوخال کو جانچنے کا ایک طریقہ ہے۔

ایشلے جڈ نے کہا کہ ان کے جواب میں خاتون نے نفی میں جواب دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہولی وڈ پروڈیوسر پر اداکاراؤں کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام

انہوں نے خود کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں ہراساں کیا جانا ان کے لیے نہیں بلکہ ان افراد کے لیے باعث شرم بات ہے، جنہوں نے انہیں ہراساں کیا اور انہوں نے تو ایسے واقعات کو سامنے لاکر اس مجرم کو ایک بار پھر شرمندہ کیا۔

واضح رہے کہ ہاروی وائنسٹن پر سب سے پہلے اکتوبر 2017 میں ایک ساتھ 32 خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا، بعد ازاں ان خواتین کی تعداد 100 سے بڑھ گئی تھی۔

ہاروی وائنسٹن کے خلاف لندن اور نیویارک پولیس کی جانب سے الگ الگ تحقیقات بھی جاری ہیں، تاہم تاحال ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

دوسری جانب یہ معاملہ صرف ہاروی وائنسٹن تک محدود نہیں، ان کے بعد متعدد اداکاروں، پروڈیوسرز و ڈائریکٹرز پر بھی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے الزامات عائد ہوئے، تاہم تمام اداکاروں، پروڈیوسرز و ڈائریکٹرز نے ان الزامات کو مسترد کیا۔

مزید پڑھیں: ’می ٹو‘: جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کی مہم نے دنیا کو ہلا دیا

خواتین کی جانب سے جنسی ہراساں کیے جانے کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ نامی مہم چلائی گئی، جس کے تحت دنیا بھر کی ہزاروں خواتین نے خود سے ہونے والے ذیادتیوں سے پردہ اٹھایا۔

بعد ازاں اسی مہم کو امریکا کے خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والے سرکاری ادارے کی مدد سے امریکی اداکاراؤں نے ’ٹائمز اپ‘ نامی قانونی تنظیم میں بدل دیا۔

اب ٹائمز اپ کے تحت دنیا بھر میں ان خواتین کو قانونی مدد فراہم کی جائے گی، جو کسی مرد کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں ہوئیں یا انہیں بلیک میل کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں