اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 (ون) (ایف) بہت وسیع ہے، 62 ایف کے تحت لوگوں کو ایک ہی طرح کی سزائیں دی گئی ہیں لیکن اب اس کی تشریح بھی ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کے دوران قانون کی تشریح کرتے ہوئے نااہل سابق ایم این اے جہانگیر ترین نے کہا کہ نواز شریف نے قطری خط دیا اور میں نے منی ٹریل دی لیکن میرا کیس ان سے مختلف ہے۔

خیال رہے کہ آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر جہانگیر ترین نے کہا کہ آرٹیکل 62 (ون) (ایف) بہت وسیع ہے، 62 ایف کے تحت لوگوں کو ایک ہی طرح کی سزائیں ملی ہیں، لیکن میرے خیال میں آرٹیکل 62 کی تشریح کرنی پڑے گی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: عمران خان اہل اور جہانگیر ترین نااہل قرار

انہوں نے کہا کہ جعلی ڈگری یا منی ٹریل پر نااہلی مختلف چیزیں ہیں کیونکہ انصاف کی عدالت ہے، ذاتیات اور شخصیات کا مسئلہ نہیں ہوتا۔

جہانگیر ترین نے مزید کہا کہ نواز شریف نے منی ٹریل نہیں دی ان کے اثاثے زیادہ ہیں، نااہلی کی وجہ کی بنیاد پر مدت کا تعین ہونا چاہیے۔

جہانگیر ترین کی نا اہلی

سپریم کورٹ نے 15 دسمبر 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی نااہلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی غیر ملکی فنڈنگ کیس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کے خلاف ان کی پٹیشن کو خارج کردیا جبکہ جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین پر اثاثے چھپانے اور آف شور کمپنیاں رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں نااہل قرار دینے کی علیحدہ علیحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف درخواستیں شریف خاندان کے خلاف پاناما پیپرز کیس دائر کیے جانے کے بعد دائر کی گئی تھیں۔

اس وقت چیف جسٹس نے مئی 2016 میں یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کیں تھیں۔

مذکورہ کیس پر سماعت کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ قائم کیا گیا، جس میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی: نواز شرف اور جہانگیر ترین کو نوٹسز جاری

سپریم کورٹ میں سماعت میں عمران خان کی آمدن، رقوم کی منتقلی، لندن فلیٹ کی خریداری پر بحث حاوی رہی جبکہ جہانگیر ترین کی زرعی آمدن، آف شور کمپنی، برطانیہ میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ توجہ کا مرکز رہی۔

عمران خان نے بارہا مکمل منی ٹریل دینے کا دعوٰی کیا تاہم حنیف عباسی کے وکلا نے عمران خان پر بار بار موقف بدلنے کا الزام لگایا اور سماعت مکمل ہونے کے بعد بھی پی ٹی آئی کی جانب سے دستاویزات فراہم کرنے پر اعتراض اٹھایا گیا۔

مذکورہ کیس پر وکلا نے 100 گھنٹے سے زائد دلائل اور 73 مقدمات کے حوالے دیئے جبکہ اس دوران درجن بھر ممالک کی اعلٰی عدلیہ کے تقریبا تین درجن فیصلوں کے اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے گئے۔

58 سماعتوں کے بعد 14 نومبر کو فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے دونوں درخواستوں کا فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا کہا تھا۔

نواز شریف کی نااہلی

یاد رہے کہ 28 جولائی کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا جس میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔

عدالت عظمٰی کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ابتدا میں 20 اپریل کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے تحت پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔

25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔

سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر قومی احتساب بیورو (نیب) نے حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل سپریم کورٹ میں داخل کی تو اسے سنا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ برقرار

سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف لندن کے 4 فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف عزیزیہ اسٹیل ملز، ہل میٹل سمیت بیرونی ممالک میں قائم دیگر 16 کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسحٰق ڈار نے ظاہر آمدن سے زائد اثاثے بنائے اُن کے کے خلاف بھی ریفرنس داخل کیا جائے، فریقین کے اقدامات سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ثابت ہو تو شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود، جاوید کیانی اور سعید احمد کے خلاف بھی نیب کارروائی کرے۔

سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں نیب کو تمام ریفرنسز دائر کرنے کے لیے ٹائم فریم بھی دیا تھا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ نیب احتساب عدالت راولپنڈی میں عدالتی فیصلے کے ڈیڑھ ماہ کے اندر ریفرنسز داخل کرے، ریفرنسز جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کردہ مواد، ایف آئی اے اور نیب کو حاصل دستاویزات کی روشنی میں داخل کیا جائے، جے آئی ٹی کے بیرون ممالک کو لکھے گئے خطوط کو بھی مدنظر رکھا جائے جبکہ احتساب عدالت ان ریفرنسز کا فیصلہ دائر کیے جانے کے 6 ماہ کے اندر کرے۔

سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے 14 ستمبر 2017 کو نیب حکام نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف 3 ریفرنسز جمع کرائے تھے جن میں فلیگ شپ جائیداد، عزیزیہ اسٹیل ملز اور لندن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے ریفرنسز کے حوالے سے ریفرنسز شامل ہیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس جلد جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں