لاہور: رانا ثناء اللہ کے ختم نبوت اور قادیانی فرقے پر نجی ٹی وی پر دیے گئے بیان دینے کے حوالے سے وزیر اعلی پنجاب نے کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی ایک ہفتے کے اندر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے قادیانیوں کے حوالے سے دیئے جانے والے بیان کی تحقیقات کرے گی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے قائم کمیٹی میں چھ علماء سیمت زعیم قادری اور ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان شامل ہیں۔

قائم کی گئی کمیٹی رانا ثناء اللہ سے ویڈیو یا تحریری بیان لے گی۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کا سیال شریف کا دورہ، اسمبلی اراکین نے استعفے واپس لے لیے

خیال رہے کہ سیال شریف مزار کے پیر حمید الدین سیالوی نے اس معاملے پر رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ مانگ رکھا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی اور پیر حمید الدین سیالوی کے بھتیجے نظام الدین سیالوی کا کہنا تھا کہ ’اگر رانا ثناء اللہ کمیٹی کو اپنے بیان کے حوالے سے مطمئن نہ کرسکے تو استعفے کی شرط رکھی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی جو فیصلہ کر ے گی ہمیں قبول ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ رانا ثناء اللہ کے استعفے والے بیان پر اب بھی قائم ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پیر حمید الدین سیالوی کی جانب سے حکومت گرانے کا اعلان واپس لیے جانے کے چند روز بعد ہی پنجاب اسمبلی میں مذہبی رہنما کی حمایت میں استعفے جمع کرانے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں نے اپنے استعفے واپس لے لیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست، پیر سیالوی نے احتجاج کی کال واپس لے لی

استعفیٰ واپس لینے والے 4 اراکین صوبائی اسمبلی میں مولانا رحمت اللہ، خان محمد بلوچ، پیر حمید الدین سیالوی کے بھتیجے رضا نصراللہ شامل ہیں۔

نظام الدین سیالوی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ شہباز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ختم نبوت کے حوالے سے ہمارے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔

شہباز شریف نے پیر حمید الدین سیالوی کی وزیر قانون پنجاب کے خلاف شکایت پر 5 رکنی کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ کمیٹی تجویز دے گی کہ رانا ثنااللہ کو سیالوی سے اپنے ریمارکس پر معافی مانگنی چاہیے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر قانون کو سیال شریف کا دورہ کرتے ہوئے معاملے پر اپنے موقف کی وضاحت کرنے کے حوالے سے بھی کمیٹی اپنی تجویز پیش کرے گی۔

قبل ازیں لاہور میں ختم نبوت کانفرنس میں پیر حمید الدین سیالوی نے حکومت کو شرعی قانون کے نفاذ کے لیے 7 دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا مطالبہ پورا نہیں ہوا تو ملک کے ہر کونے میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔

اس کانفرنس میں تحریک لبیک یا رسول اللہ، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور دیگر اتحادی جماعتوں نے بھی شرکت کی تھی۔

اس مظاہرے کا مقصد ابتدا میں رانا ثناءاللہ سے استعفیٰ لینا تھا جن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے قادیانی فرقے کے حوالے سے متنازع بیانات دیے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Ahmad Jan 31, 2018 12:44am
کسی فرقہ یا مذہب کے ساتھ اتنا تفرقہ کے اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں وزیر بھی بیان دیں۔ احمدی برادری کے ساتھ یہ بڑا ظلم ہے۔ خدارا وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کوئی دوسرا۔ مذہب ہر کسی کا ذاتی مسلہ ہونا چاہیے نہ کے سٹیٹ کا۔