اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کے شہریوں کے غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے تفصیلات طلب کرلیں تاہم سماعت کا باقاعدہ آغاز 15 فروری سے ہوگا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل محمد وقار رانا کو ہدایت کی کہ مطلوبہ تمام اداروں کے عہدیداروں کی مقررہ تاریخ پر موجودگی یقینی بنائی جائے۔

یہ پڑھیں: 6 کروڑ غریبوں کے ٹیکس چور سیاستدان

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ‘ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک میں موجود پیسہ غیر قانونی طریقے کے ذریعے اور ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر جمع کیا گیا’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘مذکورہ پیسہ پبلک کنٹریکٹ سے رشوت کی مد میں وصول کیا یا پھر دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا، اس طرح کا پیسہ معاشرے میں مجموعی ناپسندگی، عدم مساوات اور عدم توازن پیدا کرتا ہے جس سے اقتصادی سرگرمیاں اور ترقی میں خلل پیدا کرتا ہے’۔

عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات کئی برسوں سے عام مشاہدے میں ہے کہ شہریوں کی بڑی تعداد ملک میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان کے کھاتے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس میں فعال ہیں اور قوائد کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرتے’۔

یہ بھی پڑھیں: 16 سال میں اسحٰق ڈار کی دولت میں 91 گنا اضافہ ہوا، گواہ کا انکشاف

چیف جسٹس نے ایس بی پی، ایف بی آر اور ایس ای سی پی کو سمن جاری کرتے ہوئے اداروں کو حکم دیا کہ یو اے ای، سوئٹزرلینڈ، لیگزمبرگ، اسپین، اور برطانیہ سمیت ٹیکس بچانے والے ممالک برطانوی ورجن آئی لینڈ، کیمن آئی لینڈ اور چینل آئی لینڈ کے بینکوں میں موجود اکاونٹس کی تفصیلات پیش کی جائیں۔

کورٹ نے پاناما پیپرز اور پیرا ڈائیز پیپرز سمیت بیرونی کھاتوں سے متعلق ایف بی آر کی کارکردگی رپورٹ بھی طلب کرلی۔

چیف جسٹس نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، انٹرسروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو بھی ہدایت دی کہ وہ بیرونی ملک پاکستانیوں کے کھاتوں سے متعلق ضروری معلومات عدالت عظمیٰ کے ساتھ شیئر کریں۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار، اہلیہ اور کمپنیز کی تفصیلات عدالت میں پیش

اس سے قبل ایف بی آر کے چیئرمین نے کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ پاناما پیپرز میں نام ظاہر ہونے والے پاکستانیوں کے خلاف ضروری اقدامات اٹھائے گئے۔

بعدازاں کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ‘ذمہ داری سے غفلت برتنے سے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو تقویت ملتی ہے اور یہ عوامی اہمیت کا حامل ہے۔


یہ خبر 12 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں