اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے اکاؤنٹس اور گاڑیوں کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر استغاثہ کے مزید پانچ گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے جن میں بینکنگ ایکسپرٹ ظفر اقبال مفتی، نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے برطرف ڈائریکٹر قابوس عزیز اور میں موٹر رجسٹریشن اتھارٹی لاہور کے محمد نعیم کو بطور گواہ پیش کیا گیا۔

استغاثہ کے گواہ ظفر اقبال مفتی نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے مختلف بینکوں میں 15 اکاؤنٹس ہیں جن میں سے سابق وزیر خزانہ اور ان کی اہلیہ کے نام پر 7 جبکہ کمپنیز کے نام پر 8 بینک اکاؤنٹس ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تمام بینک اکاؤنٹس میں مختلف اوقات میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 81 لاکھ سے زائد جمع کرائے گئے تھے جبکہ ’چیکس اور دیگر ذرائع‘ کے ذریعے ان اکاؤنٹس میں ایک ارب 55 کروڑ 68 لاکھ 9 ہزار سے زائد کی رقم جمع کروائی گئی۔

ظفر اقبال مفتی نے بتایا کہ اگست 2017 تک ان اکاؤنٹس میں ایک ارب 57 کروڑ 48 لاکھ 91 ہزار روپے سے زائد موجود تھے جبکہ اسحٰق ڈار کے الائیڈ بینک پارلیمنٹ ہاؤس برانچ کے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ روپے سے زائد موجود تھے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر کی ہدایات پر اسحٰق ڈار، ان کی اہلیہ اور کمپنیز کے اکاؤنٹس کی بینک کریڈٹ ان فلوز رپورٹ تیار کی تھی اور تمام معلومات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے حاصل کیں۔

نادرا کے برطرف ڈائریکٹر قابوس عزیز نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ وہ چیئرمین نادرا کی ہدایت پر 21 اگست 2017 کو نیب لاہور میں پیش ہوئے اور نیب کو اسحٰق ڈار کے فیملی ٹری سے متعلق دستاویزات پیش کیں تھیں۔

قابوس عزیز نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کی بیٹی صدیقہ عادل رانا کے حوالے سے ذاتی معلومات بھی نیب کو فراہم کی گئیں جن پر نیب کو فراہم کردہ دستاویزات کے کور لیٹر پر پی ایس ٹو چیئرمین کے دستخط موجود ہیں۔

استغاثہ کے گواہ محمد نعیم نے اپنا عدالت کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ وہ نیب کی طرف سے طلبی کے بعد گزشتہ برس 22 اگست کو نیب لاہور میں پیش ہوئے تھے اور نیب کو اسحٰق ڈار اور ان کی اہلیہ کے نام پر موجود گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کیں تھیں۔

اسحٰق ڈار کے نام پر موٹر رجسٹریشن اتھارٹی میں تین گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئیں جن میں 34 لاکھ سے زائد مالیت کی ایل زیڈ ای 19 نمبر گاڑی اسحٰق ڈار نے بعد میں اپنی بیوی کے نام پر منتقل کردی تھی۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ ایل آر ایس 9700 نمبر کی گاڑی اسحٰق ڈار نے سیدہ زہرہ منصور کی نام پر منتقل کردی تھی۔

اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے ایک اور گواہ الیکشن کمیشن کے حکام سعید احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ نیب کی طرف طلب کیے جانے پر گزشتہ برس 29 اگست کو نیب لاہور میں پیش ہوئے اور اسحٰق ڈار کی طرف سے 2003 سے 2016 کے دوران الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات نیب کو فراہم کیں تھیں۔

پروسیکیوٹر کے ایک اور گواہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ان لینڈ ریونیو زون 5 لاہور کے کمشنر اشتیاق احمد نے عدالت میں اسحٰق ڈار کا 30 سال کا انکم ٹیکس ریکارڈ پیش کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’نیب کی جانب سے چیئرمین ایف بی آر کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں اسحٰق ڈار کے انکم ٹیکس کے حوالے سے معلومات طلب کی گئیں تھیں لہٰذا میں 23 اگست 2017 کو نیب کے سامنے پیش ہوا اور 1986سے 2016 تک کا انکم ٹیکس ریکارڈ تفتیشی افسر کو فراہم کیا‘۔

عدالت نے آمدن سے زائد ریفرنس میں مزید 8 گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کرتے ہوئے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس میں استغاثہ کے کُل گواہان کی تعداد 28 ہے جن میں 18 گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کرادیے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

24 جنوری 2018 کو احتساب عدالت نے سماعت کے دوران ہجویری ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کے منجمند اکاؤنٹس جزوی طور پر بحال کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

22 جنوری 2018 کو پروسیکیوٹر کے 3 گواہان نے پیش ہوکر عدالت کو اسحٰق ڈار اور ان کی اہلیہ کی جائیدادوں سے کی تفصیلات فراہم کردیں تھی۔

18 جنوری 2018 کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں قومی احتساب بیور (نیب) کو ملزم کے اعتراضات پر جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دی تھی۔

11 جنوری 2018 کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے احتساب عدالت میں اپنے فلاحی ادارے ہجویری ٹرسٹ کا بینک اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

20 دسمبر 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت روکنے کا حکم دیا تھا۔

18 دسمبر کو استغاثہ کے مزید 4 گواہان نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے جس میں ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین نے اسحٰق ڈار کی بطور اسمبلی رکن ملازمت جبکہ گواہ قمرالزماں نے ان کی تنخواہ، لوکل ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

14 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے مزید گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے جبکہ عدالت نے مزید 5 گواہان کو طلب کیا تھا اور اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کی منقولہ جائیداد قرق کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 18 دسمبر تک جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اسحٰق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے اور ان کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

11 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دے کر ان کے ضمانتی مچلکوں کو ضبط کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے یا تین روز میں 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔

4 دسمبر کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک معلوم ہو جائے گا کہ ان کے موکل کو کیا بیماری ہے۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں بھی اسحٰق ڈار پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے وکیل نے 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط نہ کرنے کے معاملے پر دلائل دیئے تھے۔

24 نومبر 2017 کو اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی نے عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے 3 ہفتوں تک کی مہلت دی جائے۔

یاد رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کے لیے اسحٰق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کی جانب سے ہجویری ٹرسٹ کا اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پروسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں