ایک شفاف آئینے کی طرح زندگی گزارنے والے مہذب آدمی اور خالص فنکار قاضی واجد کی رحلت سے پاکستان کا ثقافتی منظر نامہ سوگوار ہے۔

وہ صرف ایک شاندار فنکار ہی نہیں تھے بلکہ تہذیب، شائستگی، احترام، عاجزی اور نرم دلی بھی ان کے تشخص کی پہچان تھی۔ وہ تمام زندگی اس قدر خاموشی سے محنت کرتے رہے کہ اگر اس محنت کا احاطہ کیا جائے تو یہ آدھی صدی سے زیادہ کی ریاضت بنتی ہے۔

ایسا صابر شخص ہم سے بچھڑ گیا جس نے کبھی کسی بات کا شکوہ نہ کیا۔ وہ سب کا دوست، بے حد ملنسار، سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست شخص تھا۔

پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والے قاضی واجد وہ خوش نصیب انسان تھے، جن کو قسمت نے کم عمری میں ایک سنہری موقع دیا۔ وہ ریڈیو پاکستان گئے تو پھر وہیں کے ہو رہے اور 5 دہائیوں تک اس ادارے سے وابستگی رہی۔ 60ء کی دہائی میں انہوں نے ریڈیو اور فلم کے میڈیم میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو ثابت کیا۔

اپنے کیریئر کی پہلی فلم ’بیداری‘ میں کام کیا، جبکہ تھیٹر میں ان کے جن کھیلوں کو سب سے زیادہ شہرت ملی، ان میں ’مرزا غالب بندر روڈ پر‘، ’تعلیمِ بالغاں‘، ’لال قلعہ سے لالو کھیت‘ اور دیگر شامل رہے۔

قاضی واجد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
قاضی واجد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے

جمشید انصاری، قاضی واجد اور بشریٰ انصاری ایک ڈرامے کی ریہرسل کرتے ہوئے
جمشید انصاری، قاضی واجد اور بشریٰ انصاری ایک ڈرامے کی ریہرسل کرتے ہوئے

ٹیلی وژن کی آمد کے ساتھ، دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی، بالخصوص، ’تعلیمِ بالغاں‘، ’خدا کی بستی‘، ’تنہائیاں‘، ’آنگن ٹیڑھا‘، ’دھوپ کنارے‘ سمیت کئی شہرہ آفاق ڈراموں نے ان کو فن کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اتنی شہرت کے باوجود بھی ان کے پاؤں زمین پر ٹکے رہے اور انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں اور اپنے مداحوں کو ہمیشہ خلوص کی دولت سے نوازا۔

اس دکھ کی گھڑی میں ان کے وہ دوست جنہوں نے ان کے ہمراہ ریڈیو اور ٹیلی وژن میں کام کیا، وہ غم زدہ ہیں اور ہم جیسے مداح بھی، جو انہیں یاد کر رہے ہیں۔ انور مقصود سے گفتگو میں ان کی شاندار شخصیت کے کئی پہلو منکشف ہوئے۔ ان کے خیال میں

’قاضی واجد کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے نووارد فنکاروں کی عملی طور پر حوصلہ افزائی کی۔ ڈرامے کی عکس بندی کے درمیان وہ اکثر اداکاروں کے جملے درست کروایا کرتے تھے، جبکہ رویہ اس قدر مہربان ہوتا تھا کہ جس کو وہ کچھ سکھا رہے ہوتے تھے، وہ ذرا بھی بُرا نہ مانتا، ان کا خلوص بے لوث تھا۔ وہ ڈرامے کی صنعت کے استاد اور محسن ہیں۔‘

پاکستان کے معروف اداکار بہروز سبزواری کا کہنا تھا

قوی خان بھی قاضی واجد کے قریبی دوستوں میں سے تھے، چند روز قبل بذریعہ فون ان کی گفتگو ہوئی تھی، جس میں وہ ان کے ہاں لاہور جانے کا ارادہ رکھتے تھے، ان کا کہنا تھا

’یہ بہت غمگین کردینے والے دن ہیں، جس میں بہترین دوست کو کھو چکا ہوں۔‘

ان کے ایک اور ساتھی اداکار اور دوست اکبر سبحانی نے بھی اس موقع پر کچھ یوں اظہار خیال کیا کہ

’وہ ایک منجھے ہوئے اداکار اور تہذیب یافتہ انسان تھے۔ انہوں نے جس قدر ممکن ہوسکا ہمیشہ دوسروں کی مدد کی اور ساتھی اداکاروں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت کا صدمہ بہت گہرا ہے جس کو بھولنے میں وقت درکار ہوگا۔‘

معروف اداکار شکیل بھی اس موقع پر آبدیدہ تھے، انہوں نے کہا کہ

’وہ میرے خاندان کے ایک فرد کی طرح تھے، ایسا لگتا ہے، جیسے میرا کوئی بہت اپنا آج مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔‘

معروف ڈراما نگار حسینہ معین نے کہا کہ

’وہ ایک ذہین اداکار تھے، برق رفتاری سے اپنے کرداروں کو سمجھ لیا کرتے، ان کو کبھی بہت زیادہ سمجھانا نہیں پڑتا تھا۔‘

معروف اداکار راحت کاظمی کے خیال میں

’ہمارا معاشرہ اب ایسے لوگوں سے خالی ہو رہا ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو شاید اب اس معاشرے میں پیدا نہیں ہوا کریں گے۔ انہوں نے جو کام کیا، دل سے کیا اور خوب کیا۔ وہ ایک پُرمغز شخصیت تھے جن کا مطالعہ اور مشاہدہ اس قدر وسیع تھا، دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ایسا گوہر نایاب اب مفقود ہوچکا۔‘
قاضی واجد معروف ڈراما نگار انور مقصود، اداکار قوی، بہروز سبزواری اور دیگر کے ہمراہ
قاضی واجد معروف ڈراما نگار انور مقصود، اداکار قوی، بہروز سبزواری اور دیگر کے ہمراہ

گزشتہ برس فاطمہ ثریا بجیا کے لکھے ہوئے جاپانی ڈراموں کی کتاب، جسے راقم نے مرتب کیا تھا، کی تقریب رونمائی کے لیے میں نے قاضی واجد کو مدعو کیا تو بغیر کسی جھجھک کے وہ آنے کے لیے راضی ہوگئے، حالانکہ وہ ان دنوں خاصے مصروف تھے۔ کئی ڈراموں کی عکس بندی ایک ساتھ جاری تھی، مگر ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے دوران وہ مجھ سے اپنی مصروفیات کے بارے میں بات کرتے رہے اور تقریب میں آنے کی گنجائش نکالی۔

ان کا خیال تھا کہ چوں کہ انہوں نے بجیا سے بہت کچھ سیکھا ہے اس لیے یہ ایک ایسا موقع ہوگا جس پر سب انہیں یاد کریں گے، تو انہیں بھی اس محفل میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے جن لوگوں کی ان کی زندگیوں میں عزت کی، ان کے جانے کے بعد بھی اس عزت و احترام میں فرق نہیں آنے دیا، یہی تہذیبی رویہ ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔

قاضی واجد ایک ایسے اداکار تھے، جنہوں نے کبھی کوئی کردار نبھانے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ ان کے خیال میں وہ بچپن سے یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ بہت اچھی اداکاری کرسکتے ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر ایک اداکار تھے اس لیے وہ ایک کے بعد ایک کردار نبھاتے ہوئے ثابت کرتے چلے گئے کہ اداکاری کے رموز اور کردار کو محسوس کرنے کی صلاحیت اور اس کے ساتھ انصاف کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔

جب ہم ان کی مجموعی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ہر مشکل کردار بھی نہایت آسانی سے کر دکھایا۔ وہ بہت فطری انداز میں اداکاری کرتے تھے۔

پاکستانی شوبز میں ان جیسی شخصیت کا مالک شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ بناوٹ اور مصنوعی زندگی سے کوسوں دور تھے۔ سادہ طبیعت اور دھیمے انداز میں سلجھی ہوئی گفتگو کرنے والے ایک شاندار انسان جس سے جس انسان نے جب بھی کوئی بات کی، وہ ان کا معترف ہوا۔

وہ مطالعے کے رسیا تھے، اس لیے ان کی گفتگو میں علمیت بھی پنہاں تھی۔ جس موضوع پر بھی اظہار خیال کرتے، وہ نپا تلا اور واضح مؤقف کے ساتھ ہوتا تھا۔ جدید زمانے کی آلائشوں نے کبھی ان کو نہیں جکڑا تھا۔ وہ شوبز کی چکا چوند سے دور، ایک سادہ طرز کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کراچی کے علاقے، گلشن اقبال کی سڑکوں پر، وہ ایک مطمئن اور عام باشندے کی طرح دیکھے جاتے تھے، جب وہ خریداری کر رہے ہوتے یا کسی دکان سے کچھ خرید رہے ہوتے تو انہی لوگوں میں موجود ہوتے جن کے وہ ستارے تھے۔

ریڈیو کے مائیکروفون پر اب شفاف لہجے والی یہ آواز نہیں بولا کرے گی۔ ٹیلی وژن کی اسکرین پر فطری انداز میں اداکاری کرنے والا فنکار، کبھی نئے مناظر میں دکھائی نہیں دے گا۔ فون کال پر مہربان آواز ہم سے مخاطب نہیں ہوا کرے گی، یہ کس قدر اداس کر دینے والی بات ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی بناوٹی زندگیوں میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ قاضی واجد جیسی شخصیت سے اس طرح فیض یاب نہ ہوسکے جیسا ہم سب کو ہونا چاہیے تھا۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں