کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے چیئرمین ایگزیکٹ و دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں بریت کے خلاف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی اپیل پر سماعت کے دوران چئیرمین ایگزیکٹ شعیب شیخ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر انہیں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں چیئرمین ایگزیکٹ و دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں بریت کے خلاف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی اپیل پر سماعت ہوئی۔

خیال رہے کہ اپیل کی سماعت عدالت عالیہ کا دو رکنی بینچ کررہا تھا۔

عدالت عالیہ کے جج جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے چیئرمین ایگزیکٹ شعیب شیخ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ملزم شعیب شیخ پیش کیوں نہیں ہوئے؟

ایگزیکٹ کے وکیل امداد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ شعیب شیخ بیمار ہیں اس لیے پیش نہیں ہوسکے، جس پر عدالت نے شعیب شیخ کا میڈیکل سرٹیفیکٹ طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: جعلی ڈگری کیس: شعیب شیخ، تمام ملزمان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم واپس

علاوہ ازیں چندا ایکسچینج کے ملزمان یونس اور جنید عدالت عالیہ میں پیش ہوئے، اس موقع پر ایف آئی اے کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ماتحت عدالت نے منی لانڈرنگ کے الزام میں ٹھوس شواہد نظر انداز کرکے ملزمان کو بری کیا۔

ایف آئی اے کے نمائندے نے زور دیا کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق ایگزیکٹ کے سی ای او ملزم شعیب شیخ اور دیگر جعل سازی اور دھوکہ دہی کے کیس میں ضمانت پر ہیں۔

عدالت عالیہ نے آئندہ سماعت پر شعیب شیخ کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 21 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔

24 اگست 2018 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) شعیب احمد شیخ کو منی لانڈرنگ کیس میں بری کردیا تھا۔

شعیب شیخ کے وکیل شوکت حیات نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 249 اے کے تحت درخواست دائر کر رکھی تھی، جس میں موقف اختیار گیا تھا کہ ان کے موکل کا ایک ہی نوعیت کی درخواستوں پر دو بار ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔

شعیب شیخ پر الزام تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے اپریل 2014 میں، دبئی کی ایک فرم ’چندا ایکسچینج کمپنی‘ میں 17 کروڑ سے زائد رقم منتقل کی۔

یہ بھی پڑھیں: شعیب شیخ منی لانڈرنگ کیس میں بری

درخواست میں چندا ایکسچینج کمپنی کے ڈائریکٹرز محمد یونس اور محمد جنید کو کیس میں شریک ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

کیس کی ایف آئی آر ’فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947‘ کے تحت درج کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 15 اگست 2016 کو سندھ ہائی کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں شعیب احمد شیخ اور دیگر 14 ملزمان کی درخواست ضمانت منظور کی تھی اور تمام ملزمان پچھلے 15 ماہ سے زیر حراست تھے۔

واضح رہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل مئی 2015 میں سامنے آیا تھا جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ کمپنی آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کرکے لاکھوں ڈالرز سالانہ کماتی ہے۔

یہ رپورٹ منظر عام پر آتے ہی ایگزیکٹ کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے تھے اور ریکارڈ ضبط کرکے انہیں سیل کردیا گیا تھا جبکہ سی ای او شعیب شیخ اور دیگر اہم عہدیداروں کو حراست میں لے کر الزامات کی تحقیقات شروع کردی گئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں