اگر آپ شہر میں رہتے ہیں اور کبھی اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے یقینا گاؤں کے ماحول میں تبدیلی محسوس کی ہوگی اور وہاں صاف آسمان بھی دیکھنے کا موقع ملا ہوگا۔

شہر میں مدھم نظر آنے والے ستارے وہاں زیادہ روشن دکھائی دے رہے ہوں گے، لیکن ستاروں بھرے آسمان میں شمال سے جنوب کی طرف پھیلا ہوا بادل بھی دکھائی دیتا ہو گا، یہ بادل زمینی فضا میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی عام بادلوں کی طرح ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بادل کدھر سے آیا اور کس چیز کا بنا ہوا ہے؟

پرانے وقتوں میں جب ہمارے آباؤ اجداد نے آسمان کا مشاہدہ شروع کیا تو انہوں نے اس آسمانی بادل کے بارے میں بہت سے نظریات پیش کیے اور بعض لوگوں نے تو اس بادل کو بھوت پریت سے جا ملایا، جس سے لوگوں میں خوف پھیلا، لیکن 17 ویں صدی میں جب سائنس کی میدان میں پیش رفت شروع ہوئی تو سائنسدانوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔

نیوٹن اور اس کے زمانے کے دوسرے سائنسدانوں نے دنیا کو ستاروں سے آنے والی روشنی کی مدد سے ان کی دوری معلوم کرنے کا طریقہ بتایا، ان سے اگلے آنے والے سائنسدانوں نے اسی طریقے سے کئی ستاروں کا زمین سے فاصلہ ناپا، جس سے انہیں یہ پتا چلا کہ جو بادل اور اس میں موجود لاتعداد ستارے ہم دیکھ رہے ہیں، وہ ہماری اپنی کہکشاں کے ہی ہیں، اور شمال و جنوب کی جانب جانے والا بادل ہماری اپنی کہکشاں کا مرکز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آپ کائنات میں موجود قدرتی دور بینوں کے بارے میں جانتے ہیں؟

جس طرح زمین اور نظام شمسی کے باقی سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں، اسی طرح سورج، جو خود ایک ستارہ ہے، وہ بھی ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردش کررہا ہے، سورج کہکشاں کے مرکز سے تھوڑا ہی دور ہے، لیکن دوران گرد کہکشاں کا مرکز سورج سے دکھائی دے سکتا ہے۔ چونکہ ہم سورج سے تھوڑے فاصلے پر ہی ہیں، اس لیے ہم رات میں یہ بادل دیکھ سکتے ہیں۔

اس بادل میں دھواں درحقیقت وہی مادہ ہے جس سے 5 ارب سال پہلے ہمارا سورج بنا اور آج بھی کائنات میں بہت سے ستارے، اور ان کے گرد سیارے وجود میں آ رہے ہیں، اس دھویں کو فلکیاتی اصطلاح میں "گیلیکٹک ڈسٹ" یعنی کہکشاں کی خاک کہتے ہیں۔

—فوٹو: اسکائی اینڈ ٹیلی اسکوپ
—فوٹو: اسکائی اینڈ ٹیلی اسکوپ

دنیا میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جو شہر سے میلوں دور ہیں اور وہاں آسمان شیشے کی طرح صاف و شفاف ہے۔ "اٹاکاما" نامی صحرا، جو جنوبی امریکی ملک چلی میں واقع ہے،ان جگہوں میں سے ہے جہاں ستارے اس قدر روشن ہوتے ہیں کہ ان کی مدھم روشنی زمین کو روشن کرتی ہے۔

اس صحرا میں کہکشاں کے بادل کے ساتھ ساتھ آسمان میں مشرق سے مغرب کی طرف جاتی ایک دھندلی لکیر بھی دکھائی دیتی ہے, یہ روشنی بھی زمین کی فضا میں موجود نہیں بلکہ باہر سے آتی ہے، یہ روشنی آسمان میں "ایکلپٹک" کی جگہ پر نظر آتی ہے۔

واضع رہے کہ فلکیاتی اصطلاح میں ایکلپٹک آسمان میں موجود وہ خیالی راستہ ہے جس پر سورج، چاند اور نظام شمسی کے باقی سیارے چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایسا حیران کن سیارہ جو اپنے سورج کے آدھے سائز کا ہے

اندھیرے علاقوں میں سورج طلوع ہونے سے پہلے مشرق اور اس کے غروب ہونے کے بعد مغرب کی طرف یہ لکیر نما روشنی دکھائی دیتی ہے، فلکیاتی اصطلاح میں اس روشنی کو "زوڈائیکل لائٹ" کہا جاتا ہے، مگر یہ زوڈائیکل لائٹ پیدا کیسے ہوتی ہیں؟

—فوٹو: انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرولاجی
—فوٹو: انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرولاجی

جیسا کہ اکثر ڈاکومینٹریز میں نظام شمسی کی ابتدائی صورت دکھائی جاتی ہے کہ اس میں بہت سے پتھریلے مادے موجود تھے، جن میں بہت سے زمین پر بھی گرتے رہے، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ پتھر اب بھی موجود ہیں؟ تو اس کا جواب ہے ہاں، یہ پتھر اب بھی ہمارے نظام شمسی میں موجود ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ زوڈائیکل لائٹیس بھی انہی کا نتیجہ ہے۔

نظام شمسی میں سورج ہی روشنی کا واحد ذریعہ ہے، اور یہ روشنی سیاروں سمیت چاند، سیارچے اور ان سب کے بیچ بکھرے پتھریلے مادے بھی منعکس کرتے ہیں، چونکہ یہ پتھریلے مادے بھی اسی پلین میں ہیں، جس میں سیارے موجود ہیں اس لیے زمین سے ہمیں زوڈائیکل لائٹیس بھی ایکلپٹک کی جگہ پر ہی نظر آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کائنات کی تشکیل سے اب تک، کب کیا ہوا؟

دن میں تو سورج کی روشنی کے سامنے تمام روشنیاں ماند پڑجاتی ہیں، لیکن اس کے افق سے نیچے جاتے ہی سب چمکنے لگتی ہیں، زوڈائیکل لائٹیس عموما پورے آسمان میں ایکلپٹک کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں، لیکن سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے یہ زیادہ روشن ہوجاتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین اور سورج کے درمیان بھی یہ مادے موجود ہیں چنانچہ انہی پر سورج کی سب سے زیادہ روشنی پڑتی ہے جو یہ منعکس کرتے ہیں اور زیادہ روشن دکھائی دیتے ہیں۔

اکثر لوگ زوڈائیکل لائٹیس کو صبح صادق سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، زوڈائیکل لائٹیس پوری رات آسمان میں موجود رہتی ہیں اور صبح صادق (جسے فلکیاتی اصطلاح میں استرونومیول ٹوائیلائٹ کہا جاتا ہے) اس وقت شروع ہوتی ہے، جب سورج افق سے 18 درجے نیچے ہو، لیکن ان روشنیوں کا شہری آبادی میں فرق کرنا ناممکن ہے۔


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔

سید منیب علی 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 20, 2018 05:54pm
منیب سے گزارش ہے کہ وہ فلکیات پر اچھے مضامین لکھنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کو یہ علم بھی ہوگا کہ فلکیات کی ترقی میں مسلمانوں کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے، آسمان پر نظر آنے والے اکثر ستاروں کے نام عربی الاصل ہیں، اگر وہ تھوڑی مزید کوشش کریں تو وہ تمام انگریزی اصطلاحات جو انھوں نے استعمال کی ہے، اس کی آسان اردو، فارسی یا عربی مل جائے گی۔ جس سے ان کے اردو میں مضمون لکھنے اور پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔ اس پر شاباش