شاہ زیب قتل کیس کے مجرم شاہ رخ جتوئی نے سپریم کورٹ از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی۔

لطیف کھوسہ کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ شاہ رُخ جتوئی کو شفاف ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

شاہ رخ جتوئی نے اپیل میں کہا کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات اور گرفتاری کا حکم فوجداری قوانین میں طے شدہ اصولوں کے منافی ہے۔

اپیل میں دعویٰ کیا گیا کہ شاہ زیب قتل کیس میں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگ سکتیں۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا

اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے یکم فروری کو دیئے گئے از خود نوٹس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

خیال رہے کہ یکم فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 ملزمان کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے شاہ زیب قتل کیس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی تھی اور شاہ زیب قتل کیس میں 28 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے دیا جانے والا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے تینوں ملزمان کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی دیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر ملزمان ضمانت کی درخواست دائر کریں گے تو اس پر سندھ ہائی کورٹ سماعت آئندہ 2 ماہ کے اندر نیا بینچ قائم کرکے اس کی سماعت کا آغاز کرے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سیشن عدالت کے حکم پر ملزمان ضمانت پر رہا

اس سے قبل سماعت کے دوران شاہ زیب قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملزمان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

شاہ زیب قتل

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2012 میں کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب شاہ رخ جتوئی اور سمیت 4 ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے کے جرم میں شارخ جتوئی اور سراج علی تالپور کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ سجاد علی تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا تھا۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک وکیل مقرر کرنے کی ہدایت

شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا جس کا اطلاق گزشتہ ماہ سے ہوچکا ہے۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 2017 کو وکلا، انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 20, 2018 05:38pm
میرے خیال میں شاہ رخ جتوئی کے والدین کو پورے پاکستان سے دل سے معافی مانگنی چاہیے کہ میرے بیٹے نے جو کچھ بھی کیا تھا وہ غلط تھا، شاہ زیب خان کی جانب سے جھگڑے کی معافی مانگنے کے باوجود اس کے گھر جاکر اس کو قتل کرنا، پھر اس کے بعد دولت کے بل بوتے پر شاہ رخ کا فرار، نامی گرامی وکلا کی خدمات حاصل کرنا، جیل و اسپتال میں پرتعیش سہولتیں حاصل کرنا، عدالتوں میں قہقہے، مسکراہٹیں، وکٹری کے نشانات بنانا، دین، دولت یا دھونس یا دباؤ یا جرگوں کے ذریعے ورثا سے معافی حاصل کرلینا، یہ سب ہم نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیے کیا ہے۔ پوری قوم ہمیں معاف کردے اور ہمارے بیٹے کو بھی معاف کردے۔ اس نے قتل کرکے بہت ہی سخت گناہ کیا، اسی طرح اللہ سے بھی ضرور معافی مانگی جائے۔ اور اگر اس کے حق میں فیصلہ آگیا تو حامیوں اور رشتے داروں کو جشن منانے کے بجائے اور جلوس نکالنے کے بجائے مسجد میں اللہ کے سامنے سربسجود ہوجانا چاہیے۔ تاہم اس دنیا میں شواہد کی بنیاد پر آخری فیصلہ عدالت ہی کریگی جس کو ماننا بھی ضروری ہے۔ اگر ہمارے ملک کے بڑے عدالتی فیصلے تسلیم نہیں کرینگے تو ملک کا نظام بالکل ہی بگڑ جائے گا۔ خیرخواہ