یہ سچ ہے کہ دنیا میں آج عورت گھر سے باہر نکل کر اپنے پسند کے شعبوں میں مستعدی سے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ آج عورت معلمہ، ڈاکٹر اور انجینئر ہے اور آسمانوں میں جہاز اُڑانے سے لے کر چھوٹے کاروبار تک تقریباً تمام شعبہ ہائے جات میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔

لیکن افسوس یہ کہ پاکستان میں اب بھی آبادی کا یہ نصف حصہ یعنی خواتین باہر نکل کر کام کرنے کے بجائے اپنے گھروں تک ہی محدود ہے، یوں نصف آبادی معیشت میں پوری طرح سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔

ان کی راہ میں جہاں بے شمار مسائل اور مختلف معاشی سماجی رکاوٹوں موجود ہیں، وہیں سب سے بڑی رکاوٹ ذرائع آمد و رفت کا غیر معیاری ہونا بھی ہے۔ آمد و رفت کے مخدوش ذرائع خواتین پر بدترین اثرات مرتب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی ذہنی اور جسمانی کیفیت کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی خصوصی طور پر متاثر ہوتی ہیں۔

پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں غیر سرکاری تنظیم کے زیرِ اہتمام خواتین کے مسائل اور انہیں بااختیار بنانے کے حوالے سے کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر خواتین معاشی عمل میں بھرپور حصہ لیں تو ملک کی GDP میں 30 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

ہم اپنی پائیدار ترقی کے اہداف یعنی (SDGs) کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک خواتین کو باعمل، خود مختار اور معاشی دھارے میں بھرپور طریقے سے شامل نہ کرلیں۔ خواتین تعلیم تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن لیبر فورس میں نظر نہیں آتیں، صرف ذرائع آمد و رفت کی دقتوں کے باعث اُن کا کام پر جانا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ پچھلی مردم شماری کے اعداد و شمار اگر دیکھے جائیں تو کام کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔

پڑھیے: خواتین: روشن مستقبل کی امید

گارجین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق خراب ذرائع آمد و رفت خواتین کو اس لیے زیادہ متاثر کرتے ہیں کہ انہیں کام کے علاوہ بھی کئی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مصنف اور ماہرِ معاشیات شیفلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جینیفر رابرٹ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے زیادہ اثرات ان خواتین پر مرتب ہوتے ہیں جن کے بچے ہیں، کیونکہ امورِ خانہ داری اور بچوں کی پرورش کی غرض سے انہیں مخصوص وقت پر ہر حال میں گھر میں رہنا، یا پھر واپس گھر پہنچنا ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں سماجی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ جہاں مرد حضرات امورِ خانہ داری میں زیادہ کردار ادا نہیں کرتے لہٰذا وہ اس حوالے سے خاصے بے فکر ہوتے ہیں۔ پروفیسر جینیفر کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورتیں اس ناگوار صورت حال کا مردوں کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ اثر قبول کرتی ہیں۔

وہ خواتین جو پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتی ہیں وہ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتی ہیں، خصوصاً جنسی طور پر ہراساں ہونا تو اب ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ کچھ عرصے پہلے عورت فاؤنڈیشن نے ایک سروے کا انعقاد کیا جو خواتین کے حوالے سے اپنی نوعیت کا پہلا سیفٹی آڈٹ ہے، جس کے مطابق خواتین کو سب سے زیادہ ہراساں پبلک ٹرانسپورٹ میں کیا جاتا ہے۔ یہ سروے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی اور میٹرو بس کے حوالے سے کیا گیا ہے۔

اس تنظیم کی ذمہ دار کے مطابق 82 فیصد سفر کرنے والی خواتین بس اسٹاپ پر ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ واقعات میٹرو بسوں سے زیادہ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسوں میں پیش آتے ہیں۔ ان میں 20 سے 29 برس کی عمر والی لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ بس اسٹاپ پر کھڑے مردوں کے علاوہ موٹر سائیکل پر قریب سے گزرتے مردوں کا آوازیں کسنا بھی اس میں شامل ہے۔

پڑھیے: صنفی تفاوت کے اعتبار سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

90 فیصد خواتین میٹرو بسوں اور لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسوں کے اندر بداخلاقی کا شکار ہوتی ہیں، انہیں ہراساں کرنے میں بس کنڈیکٹر اور ڈرائیور بھی شامل ہیں۔ سروے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہماری سماجی روایات اور خصوصاً ہمارے رویوں کے پیش نظر اکثر و بیشتر خواتین اس قسم کے واقعات کی شکایت گھروں یا متعلقہ اداروں میں نہیں کرتیں۔ ان کے خیال میں اول تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور دوم یہ کہ الٹا خاندان کی جانب سے ان پر ہی دباؤ ڈالا جاتا ہے اور انہیں ڈر ہوتا ہے کہ انہیں کام پر یا اسکول کالج جانے سے روک دیا جائے گا۔

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے ایک اچھا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ ایک موبائل ایپ متعارف کروائی گئی ہے جس کے ذریعے خواتین فوری طور پر اپنی شکایت متعلقہ ادارے تک پہنچا سکتی ہیں۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں بٹن دبانے پر ڈولفن فورس مدد کے لیے پہنچ جاتی ہے، مگر سروے میں حصہ لینے والی خواتین اور بچیاں یہ موبائل ایپ استعمال نہیں کر رہی تھیں، لہٰذا اس سروس کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہیلپ لائن 1043 پر بھی شکایت کی جاسکتی ہے۔

پڑھیے: صنفی برابری: رویے تبدیل کرنے ہوں گے

خواتین ہماری نصف آبادی ہیں، جب تک ہم انہیں گھر اور کام کی جگہ پر پُرسکون ماحول فراہم نہیں کریں گے تب تک وہ ملک و معیشت کی ترقی کے لیے فعال کردار ادا نہیں کرسکیں گی۔

تنظیم کی ذمہ دار کا مزید کہنا تھا کہ آئین و قانون کے تحت ہر شہری کے جان و مال کی ذمہ داری ریاست کی ہے، لیکن اگر عورت پر گھر میں تشدد ہورہا ہے تو اس کے سدِباب کا کوئی نظام ریاست کے پاس نہیں ہے۔ اس حوالے سے بلدیاتی نظام مؤثر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ کونسلر کی سطح پر نمائندے اپنے علاقے میں ہر ایک کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں لیکن اپنی سیاسی اور داخلی کمزوریوں کے باعث یہ نظام ٹھیک طور سے کام نہیں کرپاتا۔

مگر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان نمائندوں کی اس حوالے سے کوئی تربیت یا استعداد نہیں ہوتی، اور نہ ہی ان کے پاس اختیارات ہیں۔ وہ خواتین کے مسائل کی حساسیت سے بھی عاری ہیں۔ اگر عورت پر تشدد کیا جائے تو وہ کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتی حتیٰ کہ ذہنی طور پر پریشان ہوکر وہ گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرسکتی۔

پھر مزید تشویش کی بات یہ کہ یہ تشدد کسی شمار قطار میں نہیں آتے۔ کوئی ادارہ اس پر توجہ نہیں دیتا، کہیں ریکارڈ نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ خواتین کی مدد کے لیے ادارے موجود ہیں، مگر یہ ادارے عام خواتین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے۔ جب خواتین کسی ادارے کے پاس جاتی ہیں تو وہ اس کی مصالحت کروادیتے ہیں جبکہ مسئلے کا بنیادی سبب جوں کا توں ہی موجود ہوتا ہے۔ عورت کی مدد کے لیے دارالامان، کرائسز سینٹر اور وائلینس ریفاررمز سینٹر قائم ہیں لیکن اُن کی کارکردگی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ کوئی ایک سینٹر سارے شہر کے مسائل نہیں حل کرسکتا۔ متاثرہ عورت کو کاؤنسلنگ اور نفسیاتی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عورت کے گھر کی غربت اور بے روز گاری ختم کرنے میں حکومت کوئی مدد نہیں کرتی۔

پڑھیے: وہ حقوق جو پاکستانی ملازمت پیشہ ماؤں کو حاصل ہونے چاہیئں

ہمیں بتایا گیا کہ پچھلے دنوں غیرت کے نام پر ایک نوجوان عورت کی ناک کاٹ دی گئی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ اس عورت کے خاندان اور ارد گرد کے ماحول میں اس کی عزت بحال کروانا تھا اور کوئی ایسا کام دلوانا تھا جو وہ باآسانی کرسکے کیونکہ کٹی ہوئی ناک کے ساتھ وہ کوئی دھول مٹی والا کام نہیں کرسکتی تھی۔ بہت کوشش کی کہ وہ پولیو ورکر بن جائے تاکہ اس کی کچھ اپنے علاقے میں عزت بھی بحال ہو اور معاش کا مسئلہ بھی حل ہوجائے مگر حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں مل سکی۔ یہ کوئی واحد مثال نہیں بلکہ ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں عورت کی مدد کے لیے حکومتی ادارے کہیں نظر نہیں آتے۔

خواتین کی عمومی معاشی صورت حال بہت خراب ہے۔ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا نہیں جانتیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ ان کی مدد کے لیے کون کون سے قوانین موجود ہیں۔ 94.8 فیصد خواتین اور لڑکیاں یہ نہیں جانتیں کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 509 کیا ہے؟ اس کے تحت عوامی مقامات پر خواتین کو کسی طور پر ہراسگی کا شکار بنانا یا کسی بھی خاتون کی توہین کرنا مثلاً سیٹی بجانا، گانے گانا، تحریری زبانی بداخلاقی کرنا سب جرائم میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے خلاف شکایت کی جاسکتی ہے۔ اس جرم کی سزا 3 سے 5 سال قید اور 5 لاکھ تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

خواتین کی معاشی عمل میں بھرپور طریقے سے حصہ نہ لینے کی ایک وجہ صنفی مساوات بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک چشم کشا رپورٹ اقوامِ متحدہ کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی تعصب ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔

اس حوالے سے ہمارے ملک پاکستان کا شمار ان 4 ممالک میں کیا گیا ہے جن کا اس رپورٹ میں خصوصی طور پر ذکر ہے، جہاں 18 سے 49 سال کی 49 لاکھ خواتین کو پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے 4 شعبوں سے بیک وقت محروم رکھا جاتا ہے۔ ان شعبوں میں کم عمری یا 18 برس کی عمر سے قبل شادی، تعلیم تک رسائی میں رُکاوٹ، صحت کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت اور ذرائع معاش کے متعلق فیصلے شامل ہیں۔

پڑھیے: عورت مرد سے برتر کیوں؟

یاد رہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف 2 سال قبل عالمی سطح پر منظور کیے گئے اور انہیں 2030ء تک حاصل کرنا ہے۔ یہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک دونوں کے لیے یکساں طور پر قابل عمل ہوں گے۔ یہ 17 اہداف ہیں جن میں پانچواں ہدف خصوصی طور پر خواتین کو قابل عمل اور بااختیار بنانے سے متعلق ہے جبکہ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایجنڈے کے 17 اہداف کی تکمیل کو صنفی پیمانے سے ہی پرکھا گیا ہے۔ خواتین سے متعلق ہدف کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو سماجی اور معاشی طور پر سازگار ماحول مہیہ کیا جائے جس میں بہتر ذرائع آمد و رفت ایک خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔

خواتین کے لیے ذرائع آمد و رفت میں کس طرح بہتری پیدا کی جاسکتی ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل سفارشات مرتب کی گئی ہیں، آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

  • خواتین اور ذرائع آمد و رفت کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائی جائے (اس حوالے سے یہ پہلا سروے ہے) لہٰذا سب سے پہلے ڈیٹا جمع کیا جانا ضروری ہے۔
  • بس اسٹاپس کی حالت بہتر کی جائے اور کوشش کی جائے کہ یہ خواتین اور بچیوں کے لیے محفوظ ہوں۔
  • بس اسٹاپس کی تعداد بڑھائی جائے۔ بسوں میں خواتین کی سیٹیں بھی بڑھائی جائیں۔
  • میٹرو بس کارڈ سسٹم خواتین کی استعداد کو مدنظر رکھ کر سادہ اور آسان بنایا جائے، اس حوالے سے متعلقہ اسٹاف ان کی معاونت کرے کیونکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ناخواندہ ہیں۔
  • رش کے اوقات میں بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ خواتین ہجوم میں پریشان نہ ہوں اور آرام سے سفر کرسکیں۔
  • ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کو خواتین کے حوالے سے مؤثر سفری حکمت عملی تیار کرنی ہوگی جو خواتین دوست ہوں۔
  • بس اسٹاپ اور بسوں میں سیکیورٹی الارم اور کیمرے لگائے جائیں۔
  • بسوں میں خواتین کے حصوں میں ٹکٹ وصولی کے لیے خواتین کنڈیکٹر تعینات کی جائیں۔
  • بس اسٹاپ پر ایمرجنسی فون کال کی سہولت موجود ہو تاکہ کسی ناخوشگوار صورت حال میں خواتین شکایت کرسکیں۔
  • موبائل پولیس اور ڈولفن فورس کو بس اسٹاپوں پر، خصوصاً شام اور رات کے اوقات میں تعینات کیا جائے۔
  • خواتین ٹریفک وارڈن، خصوصاً رش کے اوقات کار میں، بڑے بس اسٹاپ پر تعینات کی جائیں۔
  • بس ڈرائیور کو خواتین کے ادب و احترام اور حساسیت کے حوالے سے خصوصی تربیتی کورس کروائے جائیں۔ ایسی ہی تربیت کی سہولت پولیس کے لیے بھی ہو۔
  • محکمہءِ ٹرانسپورٹ، خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کے ماہرین اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک صنفی پالیسی تیار کریں جس میں محفوظ ذرائع آمد و رفت کے حوالے سے خصوصی توجہ دی جائے۔

یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ہماری خواتین اگر کام کرنا بھی چاہیں تو انہیں قدم قدم پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود پاکستانی مرد و خواتین کی آمدنی میں واضح فرق موجود ہے۔ ملک میں 74 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہوں نے 6 برس سے کم تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

اقوامِ متحدہ ہی کی رپورٹ کے مطابق پشتون خواتین اس معاملے میں سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں جبکہ صوبہءِ سندھ کے غریب خاندانوں میں سے 40 فیصد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ غربت کی وجہ سے عورتیں اگرچہ گھر سے نکل کر کام پر مجبور تو ہوجاتی ہیں لیکن انہیں قدم قدم پر مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن میں صنفی تعصب، مواقع نہ ملنا اور مردوں کے مقابلے میں کم اجرت شامل ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے بہت کم خواتین باہر نکل کر کام کر پاتی ہیں۔ پنجاب کی پہلی صنفی مساوات رپورٹ 2016ء کے مطابق پنجاب میں ایک مرد کی اوسطاً آمدنی 17078 ہے جبکہ عورت کی ماہانہ آمدنی 3645 روپے ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کا کردار اب بھی تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان سے گھروں میں بھی نچلے درجے کا کام لیا جاتا ہے، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کی علم حاصل کرنے کی شرح میں اب بھی فرق برقرار ہے۔ اس میں ایک مسئلہ کم عمری کی شادی بھی ہے۔ یہی وہ رکاوٹیں ہیں جن کے سبب ہمارا ملک اپنی آبادی کے 50 فیصد حصے سے معاشی فوائد حاصل نہیں کر پارہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ناصر تیموری Mar 21, 2018 03:23pm
بہت جامع انداز کی رپورٹ ہے۔ ٹرانسپورٹ واقع بہت اہم مسئلہ ہے۔ عوامی شعور تبدیل کرنے کے لئے حکومتی غفلت اور نااہلی اپنی مثال آپ ہے۔