واشنگٹن: اگر پاکستان نے رواں برس جون تک دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی اور خاتمے کے لیے مربوط لائحہ عمل تیار نہیں کیا تو پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کے فہرست کی بلیک کیٹیگری میں شامل کرنے کا امکان ہے۔

پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے حوالے سے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جون میں پاکستان پر گرے کی بجائے بلیک کیٹیگری کی تلوار لٹکنے کا امکان ہے۔

37 ممالک پر مشتمل فنانشل ایکشن ٹاسک فورسز (ایف اے ٹی ایف) کی گزشتہ ہفتے پیرس میں اجلاس ہوا جس میں ملک کو گرے لسٹ میں ڈالے جانے کا امکان تھا تاہم اجلاس کے آخر میں جاری اعلامیے میں پاکستان کا نام لسٹ میں شامل نہیں تھا۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری اعلامیے کے بعد اسلام آباد میں اعلیٰ حکام نے مذکورہ فیصلے کو ’آکسیجن ‘ قرار دیا تھا۔

یہ پڑھیں: ‘پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی واچ لسٹ میں ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘

واضح رہے کہ رواں ماہ کی وسط میں امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ قوانین میں سختی اور انسداد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ‘غیر موثر حکمت عملی’ ہونے کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں امریکا، پاکستان کو عالمی دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ہونے والی ریاست کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کرے گا۔

پاکستان کے خلاف امریکی قرارداد کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’ایف اے ٹی ایف کی جانب سے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں اسلام آباد کو ہدایت کی گی ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل پیرا ہونے کے لیے اقدامات اٹھائے‘۔

پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کرنے سے متعلق پہلا اجلاس 20 فروری کو پیرس میں منعقد ہوا جس میں چین ، ترکی اور سعودی عرب نے ملک کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں ڈالنے کی مخالفت کی لیکن بعدازاں امریکا کے دباؤ پر 22 فروری کو دوبارہ اجلاس منعقد ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے تیزی لائے گا، وزیرداخلہ

اسی دوران امریکا نے سعودی عرب کو پاکستان کے حق میں دستبردار ہونے کی شرط پر ایف اے ٹی ایف کی فل ممبرشپ کا وعدہ کیا جس کےبعد صرف دو ممالک چین اور ترکی باقی بچے جبکہ کسی بھی قرارداد کو روکنے کے کم از کم تین ممالک کی مخالفت ضروری ہوتی ہے۔

ایک اور اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اس موقعے پر ’چین نے اسلام آباد کو آگاہ کیا کہ وہ اس کی مدد کرکے عالمی دنیا کےسامنے ناکام نہیں ہونا چاہتا‘ جس پر پاکستان نے چین کے موقف کی تائید کی اور ترکی کی جانب سے بھرپور حمایت اور مدد پر شکریہ ادا کیا۔

20 فروری کے اجلاس کے بعد پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے جشن منانے والے انداز میں ٹوئٹ کیا کہ پاکستان کو 3 ماہ کی مہلت مل گئی اور ایک ہی گھنٹے بعد امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ میں کہا کہ ’اسلام آباد کا جشن بچکانہ ہے، پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے سے متعلق اگلا اجلاس 22 فروری کو ہوگا‘۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کے نامزد ’دہشت گرد‘ اب پاکستان میں بھی قابل گرفت

اس سے قبل رواں برس صدر ممنون حسین کی جانب سے انسدادِ دہشت کردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کیا جس کے مطابق اب اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کی فہرست میں شامل کالعدم تنظیموں، دہشت گردوں اور مطلوب افراد کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائی کی جاسکے گی۔

واچ لسٹ کا ڈرامہ ختم لیکن خدشات کی لہر تن گئی

اعلیٰ عہدیدے پر فائز سرکاری افسر نے بتایا کہ پاکستان مئی میں اپنا نیا ایکشن پلان جمع کرائے گا اور ایف اے ٹیا یف جون میں پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ پلان کا جائزہ لے کر ملک کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے فیصلہ کرے گا۔

امریکا کی جانب سے پاکستان کے حامی ملک سعودی عرب کو لالچ دے کر حمایت سے دستبردار کرنا خالصاً سیاسی اختلاف تصور کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب بھارت کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں ڈال دیا جائے۔

اس حوالے سے پڑھیں: جماعت الدعوۃ کے مدارس، صحت مراکز کا انتظام حکومت نے سنبھال لیا

اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر نے کہا کہ ’جغرافیائی سیاست پر مبنی ایجنڈا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پشیمان ہے اور بھارت امریکا کی خارجہ پالیسی پر بھر انداز میں عمل پیرا ہے اور پاکستان کو ایسے وقت میں دیوار سے لگانے چاہتا ہے جب ملک بیلنس آف پے منٹ کے تلخ مرحلے سے گزر رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک عالمی ادارہ ہے جو جی سیون (G-7) ممالک کے ایما پر بنایا گیا کہ جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرتا ہے تاہم پاکستان اس ادارے کا براہِ راست رکن نہیں ہے۔

مذکورہ غیر سرکاری ادارہ کسی ملک پر پابندی عائد کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا لیکن گرے اور بلیک کیٹیگری واضع کرتا ہے۔

انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف قابل قدر اقدامات کی صورت میں اس ملک کو گرے کیٹیگری میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ کسی ملک کی جانب سے منی لانڈرنگ کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو اُسے بلیک کیٹیگری میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر زرِمبادلہ کی نقل و حرکت اور ترسیل میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں 2012 میں ڈالا گیا بعدازاں اسلام آباد کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی پر ایف اے ٹی ایف نے تصدیق کی اور پاکستان کو 2015 میں واچ لسٹ سے نکال دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں