لاہور: فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی کمیٹی نے توہینِ مذہب کے مبینہ ملزم کو تشدد کا نشانہ بنانے والے چار تفتیش کاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کی تجویز پیش کردی۔

کمیٹی نے اپنی تجاویز ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایف آئی اے بشیر احمد میمن کو ارسال کیں، جن میں ساجد مسیح کے خلاف مزید کارروائی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر احمد میمن نے ایف آئی اے لاہور ہیڈکوارٹر میں ساجد مسیح کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل ڈائریکٹر سید فرید علی شاہ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی۔

یاد رہے کہ ساجد مسیح نے لاہور میں ایف آئی اے کے ہیڈکوارٹر کی عمارت سے چھلانگ لگادی تھی اور بعد میں الزام عائد کیا تھا کہ ایف آئی اے اہلکاروں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: توہینِ مذہب میں ملوث مشتبہ شخص کا ایف آئی اے پر تشدد کا الزام

تحقیقات ایف آئی اے کے انسپکٹر خالد سعید شاہ، فرانزک ڈپارٹمنٹ کے اہلکار علی افروز اور دیگر دو اہلکاروں کے خلاف کی گئی تھیں جن پر الزام تھا کہ انہوں نے ساجد مسیح کو دورانِ تفتیش شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں نازیباں الفاظ کہے۔

ساجد مسیح نے الزام عائد کیا تھا کہ ایف آئی اے حکام نے بعد میں اس سے اپنے کزن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے کہا لیکن وہ خاموش رہا اور اچانک سے عمارت سے چھلانگ لگا دی۔

ایک تحقیقاتی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے حکام اور ساجد مسیح کے بیان کا بیان ریکارڈ کروانے کے بعد اب تحقیقات ختم ہو چکی ہے، جس میں ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کو ملوث پایا گیا ہے تاہم ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

دریں اثنا سیسل اینڈ اریس فاؤنڈیشن (سی آئی سی ایف) کی صدر مِشل چوہدری نے بھی واقعے پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے اس رویے سے ہم خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ واقعے پر شدید غم و غصہ ہے، تاہم ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کی تحقیقات کروا کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے کیونکہ ایسے واقعات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا احتجاج

ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے افراد نے لاہور پریس کلب پر ایف آئی اے لاہور کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے واقعے پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔

اس حوالے سے ملک کی تقریباً 175 سول سوسائٹی کی تنظمیوں نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی جانب سے جاری کردہ بیان کی توثیق کی۔

مذکورہ بیان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے ساجد مسیح پر ہونے والے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس واقعے میں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ اس سے قانونی نافذ کرنے والے اداروں کی پاکستان کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی جانب سے ہونے والے احتجاج میں مظاہریں نے ایف آئی اے کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو بھی مسترد کردیا جس نے ساجد مسیح کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف تحقیقات کیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ وسائل کی کمی کا شکار

دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ساجد مسیح کو انصاف فراہم کرنے اور اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے ساجد مسیح کے معاملے میں ایف آئی اے کی رپورٹ بھی منظر عام پر لانے اور ساجد مسیح کا علاج کے لیے میڈیکل ٹیم بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔

اطلاعات کے مطابق ساجد مسیح کی وکیل نے الزام عائد کیا ہے کہ ایف آئی اے حکام کی جانب سے انہیں ان کے موکل سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی۔

انہوں نے وزارتِ داخلہ، سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کو خط ارصال کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی موکل سے ملاقات نہ ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔


یہ خبر 27 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں