افغان کے مذاکرات میں مثبت رد عمل دیکھنے کے بعد امریکا کو تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کی امید پھر سے جاگ اٹھی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 17 سال تک گوریلا تنازع اور غلط سفارتی اقدامات کے بعد امریکا کو کچھ حاصل نہیں ہوسکا تھا۔

تاہم انہیں عوامی و نجی سطح پر رواں ہفتے کابل میں ہونے والی عالمی کانفرنس کا سن کر خوشی ہوئی جسے وہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمان مذاکرات کا پہلا قدم سمجھتے ہیں۔

خیال رہے کہ اشرف غنی نے طالبان کو مذاکرات میں شرکت کرنے اور افغانستان کے مستقبل کے لیے انہیں سیاسی جماعت تصور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت کا اپنے علاقوں پر اثر و رسوخ کم ہوگیا، امریکی رپورٹ

واشنگٹن طویل عرصے تک غیر نتیجہ خیز تنازعے کے حل کے لیے طالبان کے ساتھ یک طرفہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں تاہم انغان مذاکرات کی وہ حمایت کرے گا۔

امریکی پالیسی سازوں کی جانب سے امریکا کی حمایت میں چلنے والی افغان فوج کی جانب سے جنگ نہ جیتنے کے بعد طالبان کو بھی یہ سوچ لینا چاہیے کہ وہ کابل پر دوبارہ قبضہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔

تاہم اب بھی کافی کچھ غلط ہوسکتا ہے اور چند امریکی حکام افغانستان میں اپنی باقی رہ جانے والی فوج کو کابل کی فوج کی پشت پناہی کرنے اور شدت پسندوں کے خلاف امن کی بحالی تک کارروائی کرنے پر زور دے رہی ہے۔

دوسری جانب کابل اور واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خطے کے لیے نئی پالیسی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نورت نے واضح کیا تھا کہ واشنگٹن کو خوشی ہے کہ اشرف غنی غیر نے کانفرنس کا استعمال کرتے ہوئے غیر حاضر طالبان کو بتایا کہ امن کے لیے کوئی شرائط نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان فورسز کی کارروائی، طالبان کا جرمن ’عسکری مشیر‘ گرفتار

ستمبر 2001 حملوں کے بعد امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں ہونے والی مداخلت کی وجہ سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد سے دہشت گرد تنظیم پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

تاہم اشرف غنی اور امریکی حکام اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ طالبان امن مذاکرات میں ملک کے نئے جمہوری آئین کو مانے بغیر بھی شرکت کرسکتے ہیں۔

امید کی جارہی ہے کہ طالبان بین الاقوامی شدت پسند تنظیم القائدہ سے الگ ہوکر اپنا افغانستان میں کردار ادا کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں