لاہور: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے پاکستانی عوام کے ٹیکس کا پیسہ حکومتی تشہیری مہم میں خرچ نہیں کیا جاسکتا، عوام کے ٹیکس کا حساب دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ کی لاہور جسٹری چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور ملک پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر حکومت کی تشہری مہم کیخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری پنجاب کی جانب سے چینلز اور اخبارات کی تشہری مہم سے متعلق مکمل رپورٹ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اپنی تشہیر کی اجازت کس نے دی؟

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ کس کے کہنے پر کون کون سے ٹی وی چینل کو کتنے اشتہارات دیے گئے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا صوبائی حکومتوں کی تشہیری مہم کا نوٹس

چیف جسٹس پاکستان نے انفارمیشن سیکریٹری کو حکم دیا کہ ابھی رپورٹ بنا کر عدالت میں پیش کی جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اب آپ لوگ ہڑتال پر چلے جائیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا حساب دینا ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری اطلاعات سے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کرتے ہوئے انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کونے کا حکم دے دیا۔

سیکریٹری اطلاعات نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ایک دن میں 12 ٹی وی چینلز پر اشتہارات چلوائے جن پر 55 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اشتہارات کے ساتھ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی تصویر بھی نشر ہوئی تھی جس پر سیکریٹری اطلاعات اس کی تصدیق کی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عوامی پیسے سے تشہیر کا حساب دینا پڑے گا کیونکہ یہ انتخاب سے قبل دھاندلی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو یہ جواز پیش کیا جائے کہ وزیراعلی پنجاب کی تصویر کے ساتھ اشتہارات قومی خزانے سے کیوں چلائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اپنی تشہیر اپنے پیسوں سے کریں یا پھر ان کی جماعت چینلز کو تشہیری مہم کے پیسے ادا کرے۔

عدالتِ عظمیٰ نے تشہری مہم پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ملتوی کردی جس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں