اسلام آباد: سینیٹ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 15 نشستوں پر کامیابی کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ اتحادیوں کی مدد سے سینیٹ چیئرمین کی نشست بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

اس ضمن میں واضح رہے کہ سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے انتخابات میں بلوچستان سے 6 اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے 8 آزاد سینیٹرز سیاسی ماحول کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔

یہ پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات

سیاسی ماہرین کے نزدیک سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں مزید پیش رفت جاری ہے جہاں ہارس ٹریڈنگ کی مد میں خطیر رقم کا دخل بھی ہو سکتا ہے۔

سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ملک کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لیے بیشتر امور میں اکیلے ہی طے کرنا ممکن نہیں ہوگا تاہم دلچسپ امر یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی اس موقع پر کون سی حکمت عملی اختیار کرتی ہے؟

اس حوالے سے واضح ہے کہ پی ٹی آئی سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی ہرگز حمایت نہیں کرے گی اور سیاسی ناقدین کا ماننا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی پیپلزپارٹی پر شدید تنقید کے بعد وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ پی پی پی کو اپنے ساتھ ملا لیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان مذکورہ اتحاد پر خاموشی کا گھونٹ پی لیں۔

یہ بھی پڑھیں: (ن) لیگ کا پرویز رشید کو چیئرمین سینیٹ نامزد کرنے پر اتفاق

سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے پاس 48 نشستیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی کل 40 نشستیں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے امید ظہار کی کہ 6 آزاد سینیٹرز اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے 5 سینیٹرز کی مدد سے پارٹی سینیٹ چیئرمین کی نشست حاصل کر لے گی۔

انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) ڈپٹی چیئرمین کی نشست دوسری پارٹی کے ساتھ شیئر کرنے پر آمادہ ہے اور اس سلسلے میں بات چیت پر جاری ہے۔

سینیٹ انتخابات میں پی پی پی کے غیر متوقع کامیابی کے بعد پی پی پی کو دیگر چھوٹی پارٹیوں اور گروپس کے ساتھ مل کر سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا، اگر پی پی پی سینیٹ چیئرمین کی نشست حاصل کرنا چاہتی ہے۔

سیاسی ناقدین کے مطابق پی پی پی قیادت کے پاس چیئرمین رضا ربانی کے علاوہ مذکورہ نشست کے لیے کوئی دوسرا امیدوار نہیں ورنہ اس امورپر پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم پاکستان اور پی ٹی آئی کی حمایت بھی حاصل نہیں رہے گی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات کے غیر متوقع نتائج

پی پی پی کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہنما نے بتایا کہ رضا ربانی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ’گڈ بک‘ میں نہیں اس لیے لگتا ہے کہ وہ رضا ربانی کو چیئرمین شپ کے لیے نامزد نہ کریں۔

تاہم اس حوالے سے شیریں رحمان اور سلیم مانڈی والا سینیٹ چیئرمین کی نشست کے لیے نامزد کیے جا سکتے ہیں، ان کے علاوہ فاورق ایچ نائیک اور رحمان ملک بھی آصف علی زرداری کے منظور نظر امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق دوسری جانب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے نزدیک رضا ربانی مذکورہ نشست کے لیے بہترین امیدوار ہیں۔

اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود ایک اقلیتی گروپ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حکمراں جماعت اور اسٹیبشلمنٹ کے مابین تناؤ میں رضا ربانی سینیٹ چیئرمین شپ کے لیے انتہائی موزوں امیدوار ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا اصل مقابلہ اسٹیبشلمنٹ سے تھا جس نے پی پی پی اور پی ٹی آئی کو کھلی چھوٹ دی، جبکہ بلوچستان میں غیر متوقع نتائج سے ثابت ہوگیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری کو کوئٹہ میں اپنا کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت دے دی۔

دوسری جانب پی پی پی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کی پارٹی سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشستوں کے لیے امیدواروں کے نام پر غور کررہی ہے تاہم میڈیا پر لیے جانے والے نام محض ’قیاس آرائیوں‘ پر مبنی ہیں۔


یہ خبر 4 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں