چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ہماری نظر میں عمران خان کی رہائش گاہ غیر قانونی ہے۔

سپریم کورٹ میں بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے گھر کا نقشہ منظور شدہ نہیں، ہماری نظر میں تعمیرات غیر قانونی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حتمی طور پر تعمیرات کو ریگولر کرانا ہی پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شور مچا ہوا ہے کہ عمران خان کی دستاویزات درست نہیں ہیں جس پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا عدالت سیکرٹری یونین کونسل کے دستخط کا جائزہ لے، جھوٹ بولا نہ ہی جعل سازی کی۔

مزید پڑھیں: بنی گالہ:‘عمران خان کی رہائش گاہ کا عدالت میں جمع این او سی جعلی قرار‘

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جعل سازی ثابت کریں گے۔

بابر اعوان نے دعویٰ کیا کہ نقشے کے حوالے سے ثابت ہوتا ہے کہ یونین کونسل سے کسی کا رابطہ ہوا ہے اور سابق معطل سیکریٹری یونین کونسل کو بیان حلفی دینے پر انعام کے طور پر دو مہنگی یونین کونسلوں کا سیکرٹری لگا دیا گیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا چند پیسوں کے لیے ہم جعل سازی کریں گے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ حفظ ماتقدم کے تحت بیس لاکھ روپے جمع کرادیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کی تعمیرات کو گرانا نہیں چاہتے، غیر قانونی تعمیرات پر جرمانہ یا فیس وصول کی جائے گی اور بنی گالہ میں سب کے لیے ایک ہی قانون بنے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بنی گالا میں عمران خان کے گھر کا سائٹ پلان منظورشدہ نہیں‘

چیف جسٹس نے وزیر کیڈ طارق فضل سے مکالمے میں کہا کہ پانچ سال سے حکومت میں بیٹھے ہیں، زون تھری کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا کیا؟

طارق فضل چودھری نے کہا کہ علاقہ مکینوں کے تمام مسائل حل کریں گے، زون تھری کی دس لاکھ رہائشیوں کو گیس کے کنکشن چاہیے ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ سب ووٹ لینے کے بہانے ہیں، آپ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کریں، لوگوں کو گیس کنکشن مل جائیں گے۔

چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے کو حکم دیا کہ راول ڈیم کے اطراف کی زمینیں اصل مقصد کیلئے استعمال نہیں ہورہیں تو لیز منسوخ کی جائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری خود جائزہ لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں بنی گالہ تجاوزات کے حوالے سے چلنے والے کیس کی سماعت تیرہ مارچ کو ہوگی۔

یاد رہے کہ 13 فروری کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر اپنی 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عمران خان کے وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے بعد 22 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔

بعد ازاں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کے بنی گالہ گھر کی تعمیرات کے معاملے پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس کے مطابق سابق سیکرٹری یونین کونسل (یو سی) نے بنی گالا گھر کے این او سی کو جعلی قرار دے دیا۔

خیال رہے کہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی آرکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں