اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نجی ٹی وی کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل میں مجرم عمران علی سے متعلق کیے گئے انکشافات پر اپنا تحریری جواب جمع کرادیا، جس میں انہوں نے اپنے الزامات ثابت نہ کرنے پر معافی مانگے بغیر آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی کرادی۔

سپریم کورٹ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے وکیل کی جانب سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے دستخط کے ساتھ جواب جمع کروایا گیا، جس میں اینکر پرسن کی جانب سے ندامت کا اظہار کیا گیا۔

اس بارے میں شاہد مسعود وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا جواب جمع کرایا ہے، جس سے مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ انکوائری کمیٹی کے ممبران کا انتخاب عدالت نے کیا جبکہ انکشافات کی سچائی کا پتہ چلانے کا مینڈیٹ بھی کمیٹی کو عدالت نے دیا اور میں کمیٹی کی فائنڈنگ کی صداقت پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔

مزید پڑھیں: پورنو گرافی سے متعلق ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات: ’اب معافی کا وقت نکل گیا‘

جواب میں کہا گیا کہ کمیٹی نے رپورٹ میں جو کہا اس کو نہیں جھٹلاتا اور کمیٹی کی تحقیقات کے بعد جواب دے کر مقدمہ لڑنا نہیں چاہوں گا۔

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ یقین دلاتا ہوں آئندہ اس طرح کا بیان دیتے ہوئے محتاط رہوں گا، قصور کے واقعہ پر بطور صحافی اور اینکر جذباتی ہوگیا تھا۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے جواب میں کہا کہ مجھے مجرم عمران علی کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے معلومات ملیں جبکہ مجرم کے بااثر افراد سے تعلقات کی بھی اطلاع ملی تھی اور اسی معلومات کی بنیاد پر رائے بنائی کہ اس مکروہ دھندے میں مجرم عمران علی کا بین الاقوامی مافیا سے تعلق ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ میرے اس عمل سے جس کی بھی دل آزاری ہوئی میں ان سے اظہار ندامت کرتا ہوں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں زینب قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت پیر 12 مارچ کو ہوگی جبکہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود اور نجی ٹی وی کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی کا وقت گزر چکا، اب انصاف ہوگا جو سب کو نظر آئے گا۔

یاد رہے کہ قصور میں 6 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس واقعے میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔

اس دعوے کے بعد چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور انہیں سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا، جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر دیئے تھے۔

بعدازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے اس کیس کی تحیقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اینکر پرسن کے دعوے کے بعد تحقیقات کی گئی لیکن مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ملا۔

جس کے بعد ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ ڈاکٹرشاہد مسعود کی رپورٹ بے بنیاد اور من گھڑت ہے اور ہم اس رپورٹ کے پیچھے چھپے محرکات سمجھنے سے قاصر ہیں جو انہوں نے نتائج کو دیکھے بغیر چلائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل ازخود نوٹس: ’ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوئی‘

زینب قتل کیس سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیقات کے لیے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) بشیر احمد میمن کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

عدالتِ عظمیٰ نے حکم جاری کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر ملزم عمران کے 37 بینک اکاؤنٹس سے متعلق ثبوت فراہم کریں۔

یکم مارچ کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے ٹی وی پروگرام میں کیے گئے دعوؤں اور انکشافات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی تھی جس میں اینکر پرسن کے دعوؤں کو جھوٹ قرار دے دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں