اسلام آباد: کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کا اجلاس ایک سال بعد بھی ملک میں پہلی نیشنل واٹر پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہا اور گزشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت اجلاس شکایتوں کا مرکز بن گیا۔

اجلاس میں سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ نے شرکت کی جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جگہ صوبائی وزیرخزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا شامل ہوئیں۔

یہ پڑھیں: آلودہ پانی کیس: ایم ڈی واٹر بورڈ کا جراثیم کے خاتمے کا نظام نہ ہونے کا اعتراف

اس حوالے سے اجلاس میں دیگر امور سمیت نیٹ ہائیڈیل منافع، پانی کے منصوبے اور سیلاب سے بچاؤ کے حفاطتی پروگرام جیسے مسائل زیرِبحث آئے لیکن بے نتیجہ ثابت ہوئے اور نیشنل واٹر پالیسی (این ڈبلیوپی) پر کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آسکی۔

اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک ایک عہدیدار نے بتایا کہ این ڈبلیو پی کا بیشتر حصہ محض سوچ و بچار کی نظر ہو گیا جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے پانی سے متعلق اعتراضات کے ڈھیر لگا دیئے گئے۔

اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے شرکاء اس بات پر متفق نظر آئے کہ این ڈبلیو پی کے تحت پانی کے موجودہ ذخائر 10 لاکھ 40 ہزار ایکٹر فٹ کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس لیے دیامر بھاشا ڈیم تعمیر کیا جائے جس کی منظوری سی سی آئی نے 2009 میں دے دی تھی۔

واضح رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم میں 60 لاکھ 40 ہزار ایکٹر فٹ پر پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: آرسینک سے آلودہ پانی: ماہرین کا رپورٹ میں نقائص کا دعویٰ

اسی دوران پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان میں پانی کی کمی سنگین صورتحال اختیار کرچکی ہے اور ترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے انٹیگریٹڈ واٹر ریسورسز منیجمنٹ (آئی ڈبلیو آر ایم) کی پالیسی اپنانی ہوگی۔

انہوں نے واضح کیا کہ آبادی میں اضافے سے پانی کی طلب بھی بڑھی ہے جس کے باعث پانی کے وسائل میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ ‘پانی کی فراہمی قومی ذمہ داری ہے لیکن زراعت سمیت شہری اور دیہی سطح پر پانی کی دستیابی اور ماحولیاتی مسائل سے متعلق فیصلے صوبوں کو لینے چاہیے’۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ این ڈبلیو پی کا متن نیشنل کلائمٹ پالیسی 2012 سے متضادم نہیں ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نے احتجاج کیا کہ نیٹ ہائیڈیل منافع کی مد میں پوری ادائیگی نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے نیٹ ہائیڈیل منافع کا معاملہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی کو فراہم کیا جانے والا 91 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں

جس پر وفاقی سیکریٹری نے وضاحت دی کہ 149 ارب روپے پنجاب اور خیبرپختونخوا کو دیئے جا چکے ہیں جبکہ واپڈا کو دیگر اسٹیک ہولڈرز سے اپنی وصولی کرنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادائیگیوں کا معاملہ جلد حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔


یہ خبر 28 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 28, 2018 05:40pm
خیبر پختونخوا کی حکومت سے گزارش ہے کہ ڈیم بنانے کے معاملے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث نہ بنیں کیونکہ سندھ اور خاص طور پر سندھ کے زیریں حصے میں پانی کی کمی انتہائی شدت اختیار کرچکی ہے۔ پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا، اگر ڈیم بنایا جائے گا تو یہ پانی پورے پاکستان کے کام آئے گا۔ اسی طرح سندھ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کی جائے، سیکڑوں اور ہزاروں ایکڑ والے وڈیروں کو تو پانی مل رہا ہے مگر غریب کو پانی کی فراہمی نہیں کی جاتی اس سلسلے میں گوگل میپ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ محکمہ ابپاشی سندھ کے ملازمین غلام نہ بنیں بلکہ پانی پر سب کا حق تسلیم کرتے ہوئے پانی کی انصاف سے تقسیم کریں۔ کسان اس سلسلے میں فیس بک لائیو کا آپشن استعمال کریں اور اپنے علاقے میں پانی کی کمی کی لائیو ویڈیو بنائیں یا پھر پانی چوری کرنے والے وڈیروں کے کھیتوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر مکمل رازداری اور اپنی جان کا خیال رکھتے ہوئے پیش کی جائے تاکہ اس کا ریکارڈ رہے۔