سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سندھ میں آلودہ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق کیس کے معاملہ پر سماعت کے دوران ایم ڈی واٹر بورڈ نے انکشاف کیا کہ شہریوں کو ملنے والے پانی سے بیکٹیریا، جراثیم، فضلہ و دیگر کے خاتمے کا موثر نظام موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آلودہ پانی کی فراہمی کے معاملے پر سماعت کا آغاز کرتے ہوئے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ شہریوں کو صاف پانی دینا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے،اگر لوگوں کو صاف پانی نہیں ملتا تو دیگر حقوق بھی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہمارے بچوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے، اسی لیے اس حوالے سے کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کے شہری مضر صحت پانی پینے پر مجبور

جسٹس ثاقب نثار نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کب تک شہریوں کو صاف پانی فراہم ہو سکے گا۔

انہوں نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ شہر سے ٹینکرز مافیا کو ختم کرنے کے حوالے سے عدالت کو ٹائم فریم دیا جائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سے کہا گیا تھا کہ کس چیز پر ہاتھ ڈال دیا ہے یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا مگر ہم اسے حل کرکے جائیں گے چاہے اس کے لیے ہمیں رات بارہ بجے بھی عدالت لگانی پڑے۔

سماعت کے دوران ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی نے عدالت کو بتایا کہ کراچی کو کینجھر جھیل سے 550 ملین گیلن پانی دیا جاتا ہے جس میں سے صرف 260 ملین گیلن پانی ٹریٹ کیا جاتا ہے باقی پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سپلائی کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جو پانی ٹریٹ کیا جاتا ہے اس میں صرف مٹی، ریت و دیگر کی تعداد کم کر دی جاتی ہیں جبکہ پانی سے بیکٹیریا، جراثیم، فضلہ و دیگر ختم کرنے کا موثر نظام موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی کا 99 فیصد پانی مضر صحت

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کراچی میں پانی کو صاف کرنے کے لئے 4 ارب روپے مختص کئے تھے جس میں سے 3 ارب 50 کروڑ روپے فلٹریشن اور 50 کروڑ روپے کلورینیشن اور دیگر کیمیکل استعمال کرنے کے لئے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے ایم ڈی واٹر بورڈ کی بریفنگ پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سے واٹر کمیشن نے کام شروع کیا ہے نو ماہ میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ ئی۔

ایس تھری اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کی صورتحال کے حوالے سے پوچھتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ تھری کو جنوری کے مہینے میں چلانے کا چیف سیکریٹری نے عدالت میں حلف نامہ جمع کرایا تھا۔

چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ٹی پی تھری کے لئے سول ورک آخری مراحل میں ہے، جبکہ مشینری کافی حد تک لگا دی گئی ہے تاہم ٹی پی تھری مکمل ہونے کے لئے مزید تین سے چار ماہ درکار ہیں۔

مزید پڑھیں: کشمور سے کراچی تک صاف پانی کی فراہمی ہماری ذمہ داری، مراد علی شاہ

جسٹس فیصل عرب نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ آپ نے حلف نامہ جمع کرا رکھا ہے اگر آپ نے اس کے مطابق مطابق کام نہیں کیاتو توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

ایس تھری منصوبے کے حوالے جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ بھی تاخیر کی نظر ہو گیا ہے جبکہ یہ منصوبہ 8 ارب روپے کا تھا جو 48 ارب روپے کا ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اتنے پیسے کون لے جاتا ہے اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونے چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: آلودہ پانی کیس: مراد علی شاہ کی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی

بعد ازاں چیف جسٹس نے سماعت کو بارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں سماعت کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کراچی کے لوگوں کیلیے نجات چاہتے ہیں جو اس کے درمیان آئے گا اسے برداشت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس نے ملک کو یہاں پہنچایا اسے سب جانتے ہیں، کیا کراچی کے شہریوں کا حق نہیں کہ انہیں صاف پانی ملے؟۔

چیف سیکریٹری نے چیف جسٹس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صرف دل لگانے کی بات ہے اگر دل لگائیں تو سارا کام ہوسکتا ہے۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ دل لگائیں ہم اتوار کو بھی بیٹھ کر کام کریں گے۔

سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ کے تبادلے پر حکم امتناع برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ چیف سیکریٹری کو عدالت کی اجازت کے بغیر تبادلہ نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پانی کا بحران سنگین صورت حال اختیار کرگیا

عدالت نے دیگر سیکر یٹریز اور افسران کے تبادلوں پر عائد پابندی ختم کردیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل وزیر اعظم تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ وفاقی حکومت تمام سہولیات اور فنڈز فراہم کرے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے آلودہ پانی کیس کے حوالے سے جاری سماعت کو آئندہ ماہ تک کے لیے ملتوی کردیا۔

خیال رہے کہ سندھ میں نکاسی آب سے متعلق سماعت گزشتہ برس سے جاری ہے، عدالت نے درخواست گزار شہاب اوستو کی درخواست پر ’جڈیشل واٹر کمیشن‘ بھی تشکیل دیا تھا۔

جسٹس اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے مارچ 2017 میں سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ بھی جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صوبہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 80 فیصد پاکستانی آلودہ پانی پینے پر مجبور

اس کمیشن کا مقصد سندھ میں پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی کی صورت حال اور صحت مند ماحول کے حوالے سے انتظامیہ کی ناکامی پر کیے گئے خدشات کی تحقیقات کرنا تھا۔

اسی کمیشن نے 4 جنوری 2017 کو پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو صوبے کے عوام کو فراہم کیے جانے والے پانی کی حیاتیاتی اور کیمیائی جانچ کی ہدایت کی تھی.

عدالتی کمیشن کی ہدایات کے بعد پی سی آر ڈبلیو نے تحقیقات کے بعد 4 مارچ 2017 کو اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سندھ کے 13 اضلاع میں شہریوں کو فراہم کیے جانے والا پینے کا پانی مضر صحت ہے.

پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) نے سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، ٹنڈو محمد خان، بدین ، تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی کے 6 اضلاع، جن میں شرقی، غربی، جنوبی، وسطی، ملیر اور کورنگی شامل ہیں، سے پانی کے 300 نمونے حاصل کرکے ان کا ایک تفصیلی بیکٹیریل تجزیہ کیا تھا۔

پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے تحقیقات کے بعد سندھ کے ان اضلاع میں زمین کی سطح پر اور زیر زمین موجود پانی کے بیشتر نمونوں کو انسانی استعمال کے لیے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Anwer Dec 23, 2017 02:16pm
جناب عالی یہ مسئلہ اتناگھمبیرہےکہ اس پرسوچنےکی جرات بھی کرنامشکل ہےدیر،سوات،چترال،مری،اسلام آباد،جہلم وغیرہ سےشروع ہوکرملک کےہردریاندی اورنالےکوگٹردریا،گٹرندی اورگٹرنالہ بنادیاگیاہےاوریہ سب غلاظت دریاسندھ میں پہنچادی جاتی ہےپانی صاف کرناہےتوابتداسےکرناہوگا