کراچی کے علاقے ملیر کے معطل سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود سے متعلق کیس میں پولیس نے 13 مفرور ملزمان کی فوری گرفتاری کے لیے 3 نئی ٹیمیں تشکیل دے دیں۔

پولیس کے مطابق مفرور ملزمان میں ملیر کے دو سابق ایس ایچ اوز سمیت تمام سابق پولیس افسران و اہلکار شامل ہیں جبکہ تحقیقات کے بعد درج قتل کے مقدمے میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 11 ملزمان گرفتار ہیں۔

پولیس حکام کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تشکیل دی گئی ٹیموں کے تنیوں انچارجز ضلع وسطی میں ایس ایچ او تعینات ہیں۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد گرفتار

نقیب اللہ قتل کیس میں مقدمے کے نئے تفتیشی افسر ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر محمد رضوان کی نگرانی میں ایس ایچ او تیموریہ انسپکٹر آصف منور، ایس ایچ او رضویہ سوسائٹی انسپکٹر ارشد جنجوعہ اور ایس ایچ او سرسید ٹاؤن انسپکٹر جاوید سکندر پر مشتمل تین ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، اس سلسلے میں پولیس کے تحریری احکامات بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزمان سچل تھانے میں درج اغوا اور قتل کی ایف آئی آر نمبر 40/18 کے حتمی چالان میں مفرور ظاہر ہیں جبکہ ملزمان شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں درج جعلی مقابلے سے متعلق درج دوسری ایف آئی آر نمبر 142/18 میں بھی مطلوب ہیں۔

پولیس کے مطابق برطرف ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شوٹر ڈھائی ماہ سے مفرور اور روپوش ہیں اور دیگر مفرور ملزمان میں محمد انار، گدا حسین، علی اکبر ملاح، خیر محمد، محسن عباس، صداقت شاہ، فیصل محمود، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض احمد، رئیس عباس، سید عمران کاظمی اور دیگر ملزمان بھی شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور تشکیل دی گئی نئی ٹیموں کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس: گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو 2 چشم دید گواہوں نے شناخت کرلیا

خیال رہے کہ نقیب اللہ محسود اور تین دیگر افراد کو رواں سال 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

واقعے کے بعد راؤ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ وہ اور واقعے کہ ذمہ دار دیگر پولیس افسران اور اہلکار مفرور ہوگئے تھے۔

آخر کار 21 مارچ 2018 کو سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور انہیں از خود نوٹس کی سماعت کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا۔

سابق ایس ایس پی ملیر کو سپریم کورٹ کے عقبی دروازے سے عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ انہوں نے اپنے چہرے کو ماسک ڈھانپ رکھا تھا، راؤ انوار کی پیشی کے موقع پر سپریم کورٹ اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جہاں اسلام آباد پولیس سمیت سندھ پولیس کی بھی بھاری نفری تعینات تھی۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری 2018 کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے مزید 2 روز کی مہلت

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں